حضرت زہراء سلام الله علیہا کے آخری ایام۔۔۔۔۔

گیارہ ہجری وہ سال ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ۔ یہ اتنا شدید صدمہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی زبان پر آپ کے لئے یہ جملے جاری ہوئے : ”اے پیغمبر خدا! آپ کی رحلت سے وہ سلسلہ ختم ہوگیا جو کسی دوسرے کے مرنے سے ختم نہیں ہوتا۔ یعنی الله اور مخلوق کے درمیان کا رابطہ ختم ہوگیا سلسلہٴ وحی و نبوت بند ہوگیا۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں جو ہوا اس سب کو لکھنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے لہٰذا ہم یہاں پر مختصر طور پر بس یہ لکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی وصیت کو بھلا دیا گیا، باغ فدک غصب کرلیا گیا، امام کو خانہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا، جس گھر میں جبرئیل بھی بغیر اجازت کے قدم نہیں رکھتے تھے اس میں آگ لگائی گئ۔ حضرت زہرا سلام الله کی ذات جو کمالات و فضائل کا مرکز تھی اور جن کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرامت کو بہت سی وصیتیں بھی فرمائیں تھیں ان کو درو دیوار کے بیچ اس طرح پیسا گیا کہ آپ کا پہلو شکستہ ہوگیا اور آپ کے بیٹے محسن کی شہادت واقع ہوئی۔ جب مہاجر و انصار میں سے کسی نے آپ کی مدد نہ کی تو آپ سے مایوس ہوگئیں۔

آپ ہر روز قبر رسول پر جاتیں اور اتنا روتیں کہ بے ہوش ہوجاتیں جب ان کو گھر لے کر آتے تھے اور وہ ہوش میں آتی تھیں تو پھر رونا شروع کردیتی تھیں۔ ایک روز حضرت علی علیہ السلام نے آپ سے فرمایا: ”اے بنت رسول! مدینہ کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے علی! آپ زہرا سے کہہ دیجئے کہ یادن میں رویا کریں یا رات میں۔ حضرت زہرا سلام الله علیہا نے جواب دیا اے ابوالحسن ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اب میں ان کے درمیان زیادہ دن زندہ نہیں رہوں گی میں جلدی ہی اپنے بابا کے پاس چلی جاؤں گی لیکن خدا کی قسم جب تک زندہ رہوں گی آرام سے نہ بیٹھوں گی۔

ہاں! آپ پیغمبر اسلام کے بعد اہل بیت پر اتنے ظلم ہوئے کہ پچھتر یا پچانوے دن تک حضرت زہرا سلام الله علیہا اتنا روئیں کہ آپ کا نام یاقوب جیسے رونے والوں کے ساتھ لیا جانے لگا۔

حضرت زہرا سلام الله علیہا بستر شہادت پر:

بہر حال حضرت زہرا سلام علیہا کے غم و اندو کا زمانہ ختم ہوا ۔ ہر انسان کی طرح آپ نے بھی اپنی زندگی کے آخرت ایام میں حضرت علی علیہ السلام کو وصیت فرمائی۔ لیکن آپ کی وصیت عام لوگوں سے جدا تھی۔ آپ نے وصیت کی کہ اے علی! مجھے شب کی تاریکی میں چھپا کر دفن کرنا تاکہ ظالم میری نماز جنازہ اور دفن میں شریک نہ ہو سکیں۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد کسی نے حضرت زہرا سلام الله علیہا کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا لیکن ایک دن جب آپ سے کہا گیا کہ آپ کا تابوت ایسا بنایا جائے گا جس میں بدن کا اندازہ نہ ہو سکے گا تو آپ بہت خوش ہوئیں اور آپ کے طاہر لبوں پر تبسم بکھر گیا۔ ہاں ! یہ وہ بی بی ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: نہ کوئی غیر مرد اسے پہچانے اور نہ وہ کسی غیر مرد کو پہچانے۔

یہ جملہ حضرت زہرا سلام الله علیہا کو چاہنے والی لڑکیوں اور عورتوں کے لئے ایک درس ہے۔ ان کے برابر ہونا تو یقینا بہت مشکل کام ہے لیکن یہ ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ سلام الله علیہا کی نظر میں سب سے اہم چیز عورت کی عفت و عصمت ہے۔

اسی دوران حضرت زہرا سلام الله علیہا نے اسماء بنت عمیس سے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حنوط سے جو کافور بچ گیا تھا اسے لے کر آؤ۔ اس کے بعد آپ نے پانی طلب فرمایا اور غسل کیا اور ایک چادر اوڑھ کر لیٹ گئیں۔ اسماء سے کہا کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز دینا اگر جواب نہ ملے تو سمجھنا کہ فاطمہ اپنے معبود کی بارگاہ میں پہونچ گئی ہے۔

جب اسماء نے تھوڑی دیر کے بعد آواز دی تو کوئی جواب نہ ملا اسماء نے دوبارہ آواز دی ۔

اے محمد مصطفےٰ کی بیٹی!

اے اشرف مخلوق کی بیٹی!

اے سب سے بہترین انسان کی بیٹی!

اے الله سے سب سے زیادہ نزدیک انسان کی بیٹی!

جب اسماء کی ان آوازوں پر بھی سکوت چھایا رہا اور حضرت زہرا کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اسماء نے آگے بڑھ کر آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹا دیا اور جو چہرے پر نظر پڑی تو اسماء سمجھ گئکہ رسول کی بیٹی اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔

حسنین علیہم السلام گھر میں داخل ہوئے اسماء سے سوال کیا کہ ہماری والدہٴ گرامی کہاں ہیں؟ اسماء خاموش رہی ۔ حسنین علیہم السلام ماں کے حجرے میں داخل ہوئے اب جو ماں کے جنازے پر نظر پڑی تو امام حسن نے امام حسین کو سینہ سے لگا کر ماں کا پرسہ دینا شروع کیا۔ حضرت علی علیہ السلام اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے جب حسنین علیہم السلام نے جاکر ان کو ماں کی شہادت کی خبر سنائی تو کسی بھی میدان میں نہ گھبرانے والے علی یہ خبر سن کر بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش آیا تو فرمایا: ”اب میں اپنے غم کو کس کے سامنے بیان کروں؟ پیغمبر کے بعد آپ کے پاس سکون ملتا تھا اب کس کے پاس جاگر آرام حاصل کروں؟“

بنی ہاشم کی عورتیں جمع ہوئیں اورساکنان مدینہ جگر گوشہ رسول ، یادگار رسالت کے دنیا سے اٹھ جانے کے سبب چیخ مارتے ہوئے پیغمبر کے گھر میں جمع ہونے لگے ۔ یہ وہ فاطمہ زہرا سلام الله علیہا ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام نے امت کو بہت سی وصیتیں کی تھیں یہ بی بی دل میں غم و اندوہ کا طوفان لئے اسلام و مسلمان کے مستقبل پر روتی ہوئی اس دنیا سے رخصت ہوگئ۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: