حضرت علی(ع) کا زخم اسلام کا زخم ہے۔۔۔۔۔

جنگ صفین میں حَکَمِیت کے نتیجے میں امام(ع) کے بعض ساتھیوں نے احتجاج کیا اور آپ سے کہنے لگے: آپ نے خدا کے کام میں کسی کو فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں دی؟ حالانکہ امام علی(ع) شروع سے ہی حَکَمِیت کی مخالفت کررہے تھے اور ان ہی لوگوں نے امام(ع) کو اس کام پر مجبور کیا تھا لیکن بہر صورت انھوں نے امام(ع) کو کافر قرار دیا اور آپ پر لعن کرنے لگے۔

یہ لوگ خوارج یا مارقین کہلائے جنہوں نے آخر کار لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انھوں نے صحابی رسول خدا(ص) کے فرزند عبداللہ بن خباب کو قتل کیا اور اس کی بیوی کا پیٹ چیر کر اس میں موجود بچے کو بھی قتل کیا۔ چنانچہ امام(ع) نے مجبورا جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ نے ابتدا میں عبداللہ بن عباس کو بات چیت کی غرض سے ان کے پاس بھیجا اور بات چیت ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بہت سے تو اپنی رائے سے دستبردار ہوئے لیکن بہت سے رہ گئے۔ آخر کا نہروان کے مقام پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں امام(ع) کے لشکر سے 7 یا 9 افراد شہید ہوئے اور خوارج میں سے 9 افراد زندہ بچ گئے۔

جنگ نہروان کے بعد امام(ع) نے عراق میں ایک بار پھر شام کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کی کوشش کی لیکن تھوڑے سے لوگوں نے ساتھ دیا۔ دوسری طرف سے معاویہ نے عراق کے حالات اور عراقیوں کی سستیوں کے پیش نظر جزیرة العرب (جزیرہ نمائے عرب) اور حتی کہ عراق میں امام(ع) کی عملداری کے اندر بعض علاقوں کو جارحیت اور افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا تاکہ ان کی قوت کو ضعف میں بدل دے اور عراق کو فتح کرنے کا راستہ ہموار کر دے۔

کوفہ کے عوام سے خطاب:

"میں کل فرمان دیتا تھا اور آج مجھے فرمان دیا جاتا ہے، کل روک دیتا تھا اور آج مجھے روکا جاتا ہے تم کو جینے سے محبت ہے اور میرا کام یہ نہیں ہے کہ میں اس چیز پر تمہیں مجبور کروں جس کو تم ناپسند کرتے"۔

بہرحال امام(ع) ایک بڑالشکر تیار کرکے صفین جانے کا ارادہ رکھتے تھے کہ اسی دوران 19 رمضان سنہ 40 ہجری کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے وقتعبدالرحمن بن ملجم مرادی نامی خارجی کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو جام شہادت نوش کرگئے۔ بعض تاریخی ذرائع نے کہا ہے کہ خوارج کے تین افراد نے امیرالمؤمنین(ع)، معاویہ اور عمرو بن عاص کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور یہ بھی کہا ہے کہ قطام نامی عورت نے بھی امام(ع) کے قتل میں کردار ادا کیا ہے لیکن یہ باتیں کسی حد تک افسانے سے مشابہت رکھتی ہیں۔

امیرالمؤمنین کے بیٹوں امام حسن، امام حسین اور محمد بن حنفیہ نے اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر کے تعاون سے رات کے وقت آپ(ع) کو غریین (موجودہ نجف) کے مقام پر سپرد خاک کیا کیونکہ بنی امیہ اور خوارج اگر آپ کی قبر کو ڈھونڈ لیتے تو قبرکشائی کرکے آپ کی بےحرمتی کرتے۔

وصیتیں: امام علی(ع) نے مسجد کوفہ میں زخمی ہوتے وقت فرمایا: فُزتُ وَرَبِّ الكعبةِ؛ (ترجمہ: رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا)۔

امیرالمؤمنین(ع) سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں آپ نے اپنے بیٹوں کو اپنے غسل، کفن، نماز اور تدفین کی کیفیت کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔ آپ نے اپنے فرزندوں کو اپنا مدفن خفیہ رکھنے کی ہدایت کی۔

جب محراب مسجد میں ابن ملجم کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے بیٹوں (حسن اور حسین (کو یوں وصیت فرمائی:

اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔ میں تم دونوں کو خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔

وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔اور دیکھو دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل کیوں نہ ہو۔

وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔اور دنیا کی جس چیز سے تم کو روک لیاجائے اس پر افسوس نہ کرنا۔

وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔اور جو بھی کہنا حق کہنا۔

وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔

وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔ظالم کے مخالف اور مظلوم کے مددگار رہنا۔

اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔میں تم دونوں کو اوربقیہ اپنی تمام اولادوں اور، اپنے تمام اهل وعیال کواور ان تمام افراد کو کہ جن تک یہ میرانوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔

وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔اورباہمی تعلقات کو استوار رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوےسنا ہے کہ آپسی تعلقات کو درست رکھنا عام نماز روزے سے افضل ہے۔

اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔ خدارا خدارا یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ کہیں ان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہاری موجود گی میں وه ضائع نہ ہو جائیں۔

اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔خدارا خدا را . اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا کہ ان کے بارے میں تمہارے نبی نے وصیت کی ہے اور اتنی شدیدتاکید فرمائی ہےکہ یہ گمان ہونے لگا تها کہ کہیں آپ ؐاُنھیں بھی میراث پانے والوں میں سے قرار نہ دے دیں۔

اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔ خدارا خدارا قرآن کا خیال رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔

اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰةِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔ خدارا خدارا نماز کی ادائیگی میں پابند رهنا اس لئے کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔ خدارا خدارا اپنے رب کے گھر کا خیال رکھنا، جب تک کہ تم زندہ ہو اسے خالی نہ چھوڑنا۔

فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔ کیونکہ اگر اسے خالی چھوڑ دیا توپھر عذاب سےمہلت نہ ملے گی۔

اللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔ خدارا خدارا راہِ خدا میں اپنے مال، جان اور زبان کے ذریعے جہاد سے دریغ نہ کرنا۔

وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔ تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اورخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔

لَا تَتْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔

دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تب بھی وہ قبول نہ ہوگی۔

یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔ اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔

أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔ دیکھو! میرےقتل کے بدلے صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔

اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ھٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔

دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس کےسر پر ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: