یکم ذیقعد 173ہجری اس عظیم خاتون کی ولادت با سعادت کا دن ہے کہ جنہیں امام زمانہ علیہ السلام نے معصومہ کا لقب عطا کیا۔ آج معصومہ قم حضرت فاطمہ بنت امام موسی کاظم(ع) کا جشن میلاد ہے اور روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کا ادارہ اس پرمسرت موقع پر تمام مومنین کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔
حضرت معصومہ قم کے مختصر حالات زندگی
اسم مبارک: آپ کا اسم مبارک فاطمہ(ع) ہے۔
لقب: آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے۔
والد: آپ کے والد گرامی خدا کی طرف سے نامزد کردہ رسول خدا(ص) کے ساتویں جانشیں اور امت کے امام حضرت موسی کاظم بن جعفر صادق(ع) ہیں۔
والدہ: آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت نجمہ خاتون ہے اور یہی برگزیدہ خاتون حضرت امام رضا(ع) کی بھی والدہ محترمہ ہیں۔
تاریخ و مقام ولادت: آپ کی ولادت با سعادت یکم ذیقعدہ سال ۱۲۳ھجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
ابتدائی زندگی: ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بچپنے ہی میں آپ اپنے شفیق والد کی شفقت سے محروم ہو گئیں۔ آپ کے والد کی شہادت بغداد میں ہارون کے قید خانے میں ہوئی۔
۲۰۰ہجری میں مامون عباسی کے بے حد اصرار اور دھمکیوں کی وجہ سے امام (ع) مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے خراسان چلے گئے اس سفر میں آپ نے اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا۔
حضرت معصومہ(سلام اللہ علیھا) کی خراسان روانگی: امام رضا(ع) کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ(س) نے بھی وطن کو الوداع کہا اور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی جانب روانہ ہوئیں۔
ہر شہر اور ہرمحلے میں آپ کا والہانہ استقبال ہو رہا تھا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب (س) کی سیرت پرعمل کرکے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی امام رضا(ع) اور دیگر آئمہ اطہار کی ولایت و امامت کا اعلان اور اہل بیت علیھم السلام کا انسانیت نواز پیام مسلمانوں تک پہنچا رہی تھیں اور بنی عباس کی فریبی حکومت کا اصل چہرہ دنیا والوں کے سامنے بے نقاب کررہی تھیں۔
حکومتی کارندوں کا قافلے پر حملہ: جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو کچھ دشمنان اہل بیت(ع) راستے میں حائل ہو گئے اور حضرت معصومہ (س) کے قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں قافلہ کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش کیا۔
ایک روایت کے مطابق ان ظالموں نے حضرت معصومہ (س) کو بھی زہر دے دیا۔
قم کی جانب روانگی: حضرت معصومہ (س) اس غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفرکو جاری رکھنا ناممکن ہو گیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیا اور آپ نے پوچھا اس شہر(ساوہ) سے شہر قم کتنا فاصلہ ہے؟ اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے فرمایا: مجھے قم لے چلو اس لئے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ:
"شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے""
حضرت معصومہ کی آمد کی خبر سے مطلع ہوتے ہی بزرگان قم کے درمیان ایک خوشی کی لہرسی دوڑ گئی اور وہ سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑ پڑے۔ موسی بن خزرج جو کہ اشعری خاندان کے بزرگ تھے انھوں نے آپ کی مہار ناقہ کو آگے بڑھ کر تھام لیا۔ اور بہت سے لوگ جو سوار اور پیادہ تھے پروانوں کی طرح اس کاروان کے ارد گرد چلنے لگے۔
ربیع الاول سال ۲۰۱ ہجری کو آپ کے مقدس قدموں کا قم کی سرزمین نے بوسہ لیا۔ پھر اس محلّے میں جسے آج کل ""میدان میر"" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حضرت کی سواری موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی نتیجتاً آپ کی میزبانی کا عظیم شرف موسی بن خزرج کو مل گیا۔ معصومہ(س) کی جائے عبادت اور قیامگاہ مدرسہ ستیہ جو آج کل ”بیت النور “ کے نام سے مشہور ہے جو اب حضرت معصومہ(س) کے عقیدت مندوں کی زیارتگاہ ہے۔
آپ کی وفات: اس عظیم ہستی نے صرف سترہ(۱۷) دن اس شہر میں زندگی گزارے اور ان ایام میں آپ اپنے خدا سے راز ونیاز اور عبادت میں مشغول رہیں۔
آخر کار روز دہم ربیع الثانی اور ایک قول کے مطابق(دوازدہم ربیع الثانی) ۲۰۱ھ کو آپ کی آنکھیں اپنے عزیز بھائی کے چہرہ منور کی زیارت کرنے سے پہلے ہی غریب الوطنی میں بہت زیادہ مصائب دیکھنے کے بعد بند ہوگئیں۔
قم کی سر زمین آپ کے غم میں ماتم کدہ بن گئی ۔ قم کے لوگوں نے کافی عزت واحترام کے ساتھ آپ کے جنازہ کو باغ بابلان میں دفن کے لیے گئے۔
معصوم کے ہاتھوں معصومہ کی تجہیز و تکفین:
اب جو سب سے بڑی مشکل اہل قم کے لئے تھی وہ یہ کہ ایسا کون باکمال شخص ہوسکتا ہے جوآپ کے جسم اطہر کو سپرد لحد کرے۔ ابھی اہل قم اس مشکل کا حل سوچ ہی رہے تھے کہ ناگاہ دوسوار جو نقاب پوش تھے قبلہ کی جانب سے نظر آنے لگے اور وہ مجمع کے قریب آئے نمازجنازہ پڑھی اس کے بعد ان میں سے ایک بزرگوار قبر میں اترے اور دوسرے بزرگوار نے جسم اطہر کو اٹھایا اور اس قبر میں اترے ہوئے بزرگوار کے حوالے کیا تا کہ اس نورانی پیکر کو سپرد خاک کریں۔
یہ دو شخصیات جو ابھی کچھ دیر پہلے آئیں تھی ، تمام مراسم به نحوِ احسن انجام دے کراور کسی سے کچھ کہے بغیر واپس روانہ ہوگئیں۔ یہ دو شخصیتیں حجت پروردگار تھیں یعنی امام رضا(ع) اور حضرت امام جواد(ع) تھے کیونکہ معصومہ(س) کی تجہیز و تکفین ایک معصوم ہی انجام دیتا ہے، تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں مثلاً حضرت زہراء(س) کے جسم اطہرکی تجہیز و تدفین حضرت علی(ع) کے ہاتھوں انجام پائی، اسی طرح حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو حضرت عیسیٰ (ع) نے بنفس نفیس غسل دیا۔
حضرت معصومہ کا روضہ مبارک
حضرت معصومہ (س) کے جسم اطہر کی تدفین کے بعد موسی بن خزرج نے ایک سائبان آپ کی قبر اطہر پر نصب کر دیا ۔ اس کے بعد حضرت زینب جو امام جواد(ع) کی اولاد میں سے تھیں انھوں نے ۲۵۶ھ میں پہلا گنبد اپنی عظیم پھوپھی کی قبر اطہر کے لئے تعمیر کروایا۔ اس کے بعد متعدد بار روضہ مبارک کی تعمیر نو اور توسیع کا کام کیا گیا معصومہ قم کا مرقد مبارک ہمیشہ سے ہر ایک کے لیے زیارت گاہ اور انتہاء طریق ہے عاشقان ولایت وامامت کے لئے یہ بارگاہ دار الشفاء اور دار مراد کا درجہ رکھتی ہے۔
مرحوم علامہ مجلسی شیخ صدوق سے حضرت معصومہ(س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایت نقل فرماتے ہیں : راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت فاطمہ معصومہ(س) کے بارے میں امام رضا(ع) سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا (من زارها فله الجنّة) کہ جو شخص ان کی قبر اطہر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوجائے گی۔
حضرت ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ تقی الجواد ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ نے فرمایا (من زار قبر عمّتي بقم فله الجنّة)جو شخص قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے بہشت اس پر واجب ہے۔
عن سعد عن الإمام الرضا (عليه السلام) قال: (يا سعد، عندكم لنا قبر) قلت له: جعلت فداك، قبر فاطمة بنت موسى؟ قال: (نعم، من زارها عارفاً بحقّها فله الجنّة)
قم کے نامور محدث سعد کہتے ہیں کہ میں امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے سعد! ہماری ایک قبر تمہارے ہاں ہے. میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو کیا آپ فاطمہ(س) بنت موسی بن جعفرؑ کے مزار کی بات کررہے ہیں؟ فرمایا: ہاں« من زارها فله الجنّة؛ جو شخص ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی زیارت کرے، اس کے لئے بہشت ہے۔
شعراء میں سے ایک شاعر حضرت معصومہ(س) کی فضیلت کے بارے میں اشعار کہے:
يا بِنْتَ مُوسَى وَابْنَـةَ الأَطْهــارِ أُخْتَ الرِّضـا وَحَبِيبَةَ الجَبَّــار
يـــا دُرَّةً مِنْ بَحْرِ عِلْمٍ قَدْ بَدَت ْ لِلَّهِ دَرُّكِ وَالعُــلُوِّ السَّــــارِي
أَنْتِ الوَدِيعَةُ لِلإمامِ عَلَى الوَرَى فَخْرِ الكَرِيمِ وَصَاحِبِ الأَسْرارِ
لا زِلْتِ يا بِنْتَ الهُدى مَعْصُومَةً مِنْ كُلِّ ما لا يَرْتَضيــهِ البـــارِي
مَنْ زَارَ قَبْرَكِ في الجِنــانِ جَزاؤُهُ هَذا هُوَ المَنْصُوصُ في الأَخْبارِ