ابن زیاد کے دربار میں جناب زینب(س) کی تاریخی گفتگو

سانحہ عاشوراء کے بعد عمر بن سعد لعین نے اپنے مقتولین کو گیارہ محرم کو دفن کیا اور امام حسین کے اہل بیت کو پابند رسن قیدی بنا کر بے کجاوہ انٹوں پر سوار کیا اور انھیں لے کر کوفہ روانہ ہو گيا۔ محرم کی بارہ تاریخ کو اسیرانِ کربلا کوفہ میں داخل ہوئے

شیخ مفید کے مطابق اسیران آل محمدؐ اور شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ کے شہر میں پھیرانے کے بعد جب ابن زیاد دربار میں لاگیا تو عوام کو دربار میں داخل ہونے کی اجازت دی اور امام حسینؑ کے سر کو اس کے سامنے رکھا گیا اور پھر اسیر خواتین اور امام حسینؑ کے بچوں کو دربار میں لایا گیا۔ جناب زینب(س) دیگر اسیر خواتین کے حصار میں تھیں اور دربار میں آنے کے بعد کونے میں بیٹھ گئیں۔
عبیداللہ ابن زباد نے پوچھا: یہ عورت جو کونے میں خواتین کے درمیان ہے کون ہے؟ جناب زینب(س) نے جواب نہیں دیا۔
عبیداللہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔ تو کسی کنیز نے کہا: وہ پیغمبر کی نواسی زینب ہیں۔
عبيدالله بن زیاد: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔
زینب (س) : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازا (ہماری خاندان سے ہے) اور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی، اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا، اور بدکار ہم نہیں تم اور تمہارے پیروکار بدکار ہیں اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔
ابن زیاد: دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟
زینب (س): اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کے مقدر میں اللہ تعالی نے شہید ہونا قرار دیا تھا اور انہوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمہاری شکایت کریں گے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے، اے ابن مرجانہ کے بیٹے تم پر تمہاری ماں روئے!
ابن زیاد: اللہ نے تمہارے نافرمان بھائی حسین، اس کے خاندان اور سرکش لشکر کو مار کر مرے دل کو ٹھنڈک دی۔
زینب (س) : خدا کی قسم تم نے ہمارے بزرگ کو مارا، ہمارے درخت کو کاٹا اور جڑ کو اکھاڑا، اگر یہ کام تمہاری دلی تسکین کا باعث ہو تو تم نے شفا کو پایا ہے۔
ابن زیاد غصہ اور توہین آمیز حالت میں: یہ بھی اپنے باپ علی کی طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمہارا باپ بھی شاعر تھا اور سجع اور قافیے میں بات کرتا تھا
زینب (س): ایک عورت کو سجع اور قافیوں سے کیا کام؟یہ سجع کہنے کا کونسا وقت ہے؟
جناب زینب (س) نے جب کہا: «ہم نے اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا..... اے ابن مرجانہ تمہاری ماں تم پر روئے......
ان جملوں اور جناب زینب (س) کی نپی تلی اور باوقار گفتگو کو سن کر ابن زیاد غصہ میں آ گیا اوراس نے جناب زینب (س) کو سزا دینا چاہی لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔۔

اس کے بعد ابن زیادہ ملعون نے امام سجاد(ع) کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ یہ علی بن حسین(ع) ہے۔ تو ابن زیادہ لعین کہتا ہے: علی بن حسین کو تو اللہ نے قتل نہیں کردیا؟ یہ سننا تھا کہ امام سجاد(ع) نے نہایت شجاعت اور بغیر کسی خوف و ڈر کے گرجتی ہوئی آواز میں اس ملعون سے کہا: میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی بن حسین ہے لوگوں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ اس لہجے میں یہ جواب سن کر ابن زیادہ ملعون نے کہا:لوگوں نے نہیں بلکہ اسے اللہ نے قتل کیا ہے۔ امام سجاد(ع) نے رسول خدا(ص) سے ورثے میں ملنے والی دانائی اور امیر المومنین(ع) کی شجاعت کے ساتھ اس ملعون کو اپنے دلیرانہ لہجے میں کہا: اللہ تو موت کے وقت روحوں کو قبض کرلیتا ہے،اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔ ابن زیادہ ملعون نے جب یہ جواب سنا تو اس نے کہا: تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھے جواب دیتے ہو، پھر اس ملعون نے جلادوں سے کہا: اسے لے جا کر اس کی گردن اڑا دو۔ اس ملعون کی یہ بات سنتے ہی حضرت زینب(ع) نے بڑھ کر فرمایا: اے ابن زیاد تو ہم سے میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا، اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ مجھے بھی قتل کر دو۔ امام سجاد(ع) نے فرمایا: اے میری پھوپھی جان آپ مجھے اس سے بات کرنے کی مہلت دیں۔ پھر امام سجاد(ع) نے ابن زیاد ملعون کو مخاطب کر کے اپنے علوی لہجے میں فرمایا: اے ابن زیاد کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دیتے ہو؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ قتل ہو جانا تو ہماری عادت ہے اور شہادت تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے عطا کردہ سعادت ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: