حضرت زینب(ع) کے جشن میلاد کی پرمسرت مناسبت پہ حضرت زینب(ع) کے مختصر حالات زندگی پیش خدمت ہیں

روضہ مبارک سيدة زينب عليها السلام
روضہ مبارک حضرت عباس(ع) تمام محبان اہل بیت کو حضرت زینب(ع) کے جشن میلاد کی مبارک باد پیش کرتا ہے اور اس مناسبت کے حوالے سے حضرت زینب(ع) کے حالات زندگی کا ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے:
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی ولادت با سعادت
اہل بیت نبوی سے مربوط ہمارے حقیقی اسلام کی تاریخ میں بہت سی ایسی عظیم خواتین کا ذکر ملتا ہے کہ جنہوں نے اسلامی تاریخ کے صفحات پر اپنے سیرت و کردار کی بلندی اور کارناموں کی رفعتوں کوثبت کیا ہے، اھل بیت اطہار کی وہ خواتین جو زہد و تقوی ،قربانی و فدا کاری اور صبر وشجاعت میں اعلی ترین مراتب پر فائز ہیں ان میں نمایاں ترین نام دختر بتول حضرت زینب بنت علی ابن ابی طالب علیھما السلام کاہے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا پانچ جمادی الاول سن پانچ ہجری یا چھ ہجری کو اس دنیا میں تشریف لائیں ۔
ایک روایت کے مطابق آپ کی ولادت با سعادت شعبان چھ ہجری کے ابتدائی دنوں میں ہوئی۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھاکےوالد گرامی امیرالمومنین اورسیدالوصیین ہیں اورآپ کی والدہ ماجدہ سیدةالنساءالعالمین اور بضعة الرسول ہیں آپ کو ایسے عظمی والدین کی اولاد ہونے کا شرف حاصل ہے کہ جن کی مثل پوری کائنات میں کوئی نہیں ہو سکتا۔
جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا اس دنیا میں تشریف لائیں تو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا انہیں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس لے کر آئیں اور ان سے فرمایا: آپ اس مولود کا نام رکھیں، تو حضرت علی(ع) نے فرمایا: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے اس کا نام نہیں رکھ سکتا، اور پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے فرمایا: میں اللہ تعالی سے پہلے اس مولود کا نام نہیں رکھ سکتا، پھر اس کے بعد حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور نبی کریم(ص) پر سلام بھیجنے کے بعد فرمایا: اس مولود کا نام زینب رکھو، اللہ نے اس مولود کے لیے یہی نام منتخب کیا ہے۔
پھر اس کے بعد جبرائیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ان مصائب کے بارے میں بتایا کہ جو حضرت زینب سلام اللہ علیھا پر ڈھائے جائیں گے، ان مصائب کو سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے گریہ کیا اور فرمایا: جو بھی اس بچی کے مصائب پر گریہ کرے گا اس کا اجر وہی ہے جو اس کے بھائی حسن(ع) اور حسین(ع) پر رونے کا ہے۔
کریم و سخی گھرانہ
جب حضرت زینب بڑی ہوئیں تو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ان کی شادی اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر طیار کے ساتھ کر دی اور اُن کا حق مہر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے حق مہر کی طرح چار سو اسی درہم قرار دیا، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے حق مہر کی رقم اپنے ذاتی مال سے جناب عبداللہ بن جعفر طیار کو ہبہ کی۔
جناب عبد اللہ ان لوگوں میں شامل ہیں کہ جنہیں تاریخ سخاوت، اعلی نسب اور بلند ایمان کے حوالے سے جانتی ہے اور بہت زیادہ سخاوت کی وجہ سے لوگ آپ کو بحر الجود کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
جناب عبد اللہ وہ پہلے مسلمان ہیں کہ جو حبشہ میں پیدا ہوئے، حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے حجام کو بلایا اور جناب جعفر طیار کے بیٹوں کے بال ترشوائے اور فرمایا: محمد ہمارے چچا ابوطالب(ع) کی طرح ہے اور عبد اللہ صورت و سیرت میں میرے مشابہ ہے، پھر اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے جناب عبد اللہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا: اے اللہ جعفر کے گھر والوں کی نگہبانی فرما اور عبد اللہ کے ہاتھ میں برکت ڈال۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے یہ دعا تین مرتبہ دھرائی۔
اس کے بعد جناب اسماء آئیں اور اپنے شوہر جعفر کو یاد کرنے لگیں، تو اس وقت رسول خدا(ص) نے فرمایا: خدا تعالی تمہیں اس عائلہ کی دیکھ بھال پر اجر عطا کرے گا اور دنیا و آخرت میں ان سب کا ولی و سرپرست میں ہوں ۔تاریخ ذہبی ج3ص356۔
روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی اولاد درج ذیل ہے:
جناب علی، جناب عون، جناب عباس، جناب ام کلثوم
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے بیٹے جناب علی کو تاریخ میں زینبی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے خدا نے انہیں کثیر اولاد عطا کی اور ان کی نسل اب تک باقی ہے۔
جناب عون کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام اور اسلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کی قبر اقدس کے ساتھ گنج شہداء میں دفن ہوئے۔
حضرت زینب(ع) کی فضیلت
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے ایسے پاک و طاہر گھر میں پرورش پائی کہ جس میں ذکرِ خدا اپنے عروج و معراج کی مزولوں کو چھوتا اور صالح اعاول اپنی ادائیگی کے حق کو پاتے، جس میں حضرت علی علیہ السلام کے علم وحکمت کی سر پرستی ہوتی، جہاں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے لطف وکرم کا سایہ رہتا، جہاں جوانانِ جنت کے سرداروں کی ہر وقت مجلس نصیب ہوتیـ ـ ـ ـ ـ
ایسےعظیم گھر میں تربیت و پرورش پانے والی شخصیت کا حق یہی کہ وہ ان ہر کمال کےاعلی ترین مراتب پر فائز ہو۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا میں وہ تمام اعلی صفاتِ کمال اور فضائل پائے جاتے تھے کہ جن کی نظیر کسی بھی خاتون میں ملنا ناممکن ہے، انیا فضائل و مناقب کی وجہ سے آپ کو صدیقۃالصغری، عقیلہ بنی ہاشم، موثقہ، عارفہ، کاملہ، عابدہ آل علی اور بہت سے دوسرے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔
ْحضرت امام زین العابدین علیہ السلام جناب زینب سلام اللہ علیھا سے فرماتے ہیں: (انت بحمد اللہ عالمة غیر معلمة و فاھمة غیر مفھمة)سفینة البحار ج4ص315
الحمد اللہ آپ ایسی عالمہ ہیں کہ جس کو کسی نے تعلیم نہیں دی اور ایسی فہم وفراست رکھتی ہیں کہ جسے آپ نے کسی سے نہیں سیکھا۔
کتاب کمال الدین/ صفحہ 501/ باب 45/حدیث 27/اور کتاب طبقات الکبری /ج1/ص368/ میں مذکور ہے:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی بیماری کے زمانہ میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا ہی امام حسین علیہ السلام کی خاص نائب تھیں اور لوگ شریعت کے مسائل میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی طرف ہی رجوع کرتے تھے۔
حضرت زینب(ع) کا حضرت امام حسین(ع) سےتعلق
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بھائی ہونے کے حوالے سے تعلق اور امام وقت ہونے کے حوالے سے تعلق بہت سے نادر اور انمول پہلوؤں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بھائی بہن کا جوعظیم تعلق امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے درمیان موجود تھا نہ تو ایسا تعلق تاریخ میں پہلے کسی بہن بھائی میں تھا اور نہ ہی قیامت تک کسی بہن بھائی میں ہو گا، اور ایسا کیوں نہ ہو دونوں نے ایک ہی آغوش میں پرورش پائی اور دونوں ایک ہی شجر کی دو شاخیں ہیں۔
روایت میں ہے حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے اس دنیا میں آنے کے بعد ایک دن حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس گئیں اور ان سے فرمایا: اے میرے بابا! میں زینب(ع) میں ایک عجیب چیز کا ملاحظہ کرتی ہوں۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا وہ کیا ہے؟ تو حضرت فاطمہ زہراء(ع) نے فرمایا: جب تک حسین(ع) گھر نہیں آ جاتا زینب روتی رہتی ہے اور جب حسین(ع) گھر میں آ جائے تو زینب(ع) اپنے بھائی حسین(ع) کی طرف رخ کر لیتی ہے اور دیر تک اپنے بھائی کو دیکھتی رہتی ہے۔
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بات سنی تو انہوں نے رونا شروع کر دیا اور فرمایا: مجھے جبرائیل نے ان مصائب کے بارے میں بتایا ہے کہ جو حسین(ع) اور زینب(ع) پر ڈھائے جائیں گے۔
حضرت زینب کی اپنے چچا کے بیٹے عبد اللہ بن جعفر طیار سے شادی کے بعد ایک دن امام حسین علیہ السلام کا دل اپنی بہن کو ملنے کے لیے بہت بے قرار ہوا، امام حسین علیہ السلام جب اپنی بہن کو ملنے کے لیے ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنے گھر کے صحن میں سورہ یہیں اور دھوپ ان پر پڑ رہی، جب امام حسین علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا تو وہ خود اپنی بہن کے پاس ان پر سایہ کر کے کھڑے ہو گئے، جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی آنکھ کھلی تو اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر فرمایا: اے میرے بھائی! اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک کیا آپ خود مجھ پر سایہ کر کے کھڑے رہےـ ـ ـ ـ ـ
یہ واقعہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے ذہن میں نقش ہو گیا اور جب عاشور کا دن آیا اور امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا تو حضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنے بھائی کے لاشہ کو دھوپ سے بچانے کے لیےـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام سے محبت فقط بھائی ہونے کے ناطے نہ تھی بلہئ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کو امام حسین علیہ السلام کی حقیقی معرفت حاصل تھی حضرت زینب سلام اللہ علیھا جانتی تھیں کہ امام حسین(ع) اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، امام حسین(ع) ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، حضرت زینب جانتی تھیں کہ آیت مباہلہ، آیت مودت، آیت تطہیر، سورہ (ھل اتی) اور بہت سی دوسری آیات اور سورتیں امام حسین(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
روایت میں ہے ایک دن امام حسین علیہ السلام قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے کہ اسی اثنا میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا تشریف لےآئیں، امام حسین(ع) نے جونہی اپنی بہن کو دیکھا تو ہاتھوں میں قرآن کو لیے ہوئے اپنی بہن کے احترام میں کھڑے ہو گئے ۔
اس روایت کو پڑھنے کے بعد اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا: جس عظیم ہستی کے احترام میں قرآن ناطق اور قرآن صامت دونوں ہی کھڑے ہوجائیں اس ہستی کا نام زینب بنت علی(ع) ہے۔
امام حسین علیہ السلام اورحضرت زینب سلام اللہ علیھا کے درمیان موجود بھائی و بہن اور امام وقت و ماموم کے تعلق کی نظیر پوری کائنات میں نہیں مل سکتی اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے اسلام کی حفاظت اور سر بلندی کے لیے جس طرح سے صبر و استقلال اور بہادری کا مظاہرہ کربلا اور اس کے بعد رونما ہونے والے ہولناک واقعات میں کیا وہ ہر مسلمان اور حریت پسند کے لیے اعلی ترین نمونہ عمل ہے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے کربلا، کوفہ و شام اور مدینہ میں جن مصائب کا مکمل ثابت قدمی اور شجاعت سے سامنا کیا ان مصائب کا سامنا کرنے سے پہاڑ ریزوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور سمندر قطروں کی شکل اختیار کر جاتے ہیںـ ـ ـ ـ
ہمارا سلام ہے اس عظیم زینب بنت علی پر کہ جو اسلام کی حفاظت و بقا کے لیے قربانیاں دینے سے ذرا برابر بھی نہ گھبرائی اور اپنے بھائی کا بے سر لاشہ ہاتھوں میں لے کر آسمان کی طرف منہ کر کے فرماتی ہے اللھم تقبل منا ھذا القربان اے اللہ ہماری اس قربانی کو قبول فرما۔

حضرت زینب(ع) کا زہد وتقوی اور علم و عبادت:
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے زہد و تقوی اور عبادت کے بارے میں تاریخ یوں بیان کرتی ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے کائنات کے مشکل ترین دنوں اور کربلا و شام جیسے مصائب میں بھی کبھی اپنی نماز تہجد کو بھی قضا نہیں کیا تھا۔
فاضل قائنیی لکھتے ہیں: حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ شام جاتے ہوئے میری پھوپھی زینب(ع) نے راستے کے تمام تر مصائب کے باوجود اپنی نماز تہجد تک قضا نہ کی، ایک دن میں نے دیکھا کہ میری پھوپھی بیٹھ کر نماز پڑھ رہی ہیں تو میں نے ان سے یوں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہی ہوںـ ـ ـ ـ ـ
اس کی وجہ یہ تھی کہ اسیران کربلا کو ظالم جو کھانا دیتے تھے وہ انتہائی کم ہوتا تھا جس کی وجہ سے بی بی اپنا کھانا بھی بچوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔
فاضل لکھتے ہیں: جب امام حسین علیہ السلام شہادت سے پہلے اپنی بہن کو آخری مرتبہ ملنے آئے تو انہوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیھا سے فرمایا: میری بہن مجھے نماز شب میں نہ بھولنا۔
فاطمہ بنت حسین(ع) فرماتی ہیں: میری پھوپھی اس(دسویں محرم کی) رات محراب عبادت میں کھڑی عبادت کرتی رہیں اور اپنے پروردگار سے دعا میں مشغول رہیں اور ساری رات نہ تو ہمارے آنسو رکےاورنہ ہی ہماری سسکیاں رکیں ۔
کتاب زینب الکبری للنقدی ص81۔
روایات میں مذکور ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا اپنے بابا کے ساتھ کوفہ میں رہتی تھیں تو اس وقت وہ اپنے گھر میں عورتوں کو قرآن کی تفسیر پڑھاتی تھیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا سے بہت سی احادیث اور روایات مروی ہیں کہ جو تاریخ و حدیث کی کتابوں میں مذکورہیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے پردہ کا یہ عالم تھا کہ یحیی مازنی کہتا ہے کہ میں مدینہ میں حضرت امیرالمومنین(ع) کے پڑوس میں رہتا تھا لیکن خدا کی قسم! نہ تو میں نے کبھی حضرت زینب(ع) کو دیکھا اور نہ ہی کبھی ان کی آواز سنی اور جب حضرت زینب(ع) اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لیے جاتیں تو رات کے وقت زیارت کے لیے گھر سے نکلتیں اور ان کے دائیں طرف حضرت امام حسن(ع) ہوتے اور بائیں طرف حضرت امام حسین(ع) ہوتے اور ان کے آگے آگے حضرت امیرالمومنین(ع) خود چلتے اور جب وہ قبر کے قریب پہنچتے تو حضرت امیرالمومنین(ع) آگے بڑھ کر چراغ کو بجھا دیتے ایک دفعہ امام حسن(ع) نے اپنے بابا سے چراغ بجھانے کا سبب دریافت کیا تو امام(ع) نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ کسی کی نظر تمہاری بہن زینب پر پڑے۔
حضرت زینب(ع) کےمصائب
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کو ایسے المناک اور پر درد مصائب کا سامنا کرنا پڑا کہ جس سے کم سن بچے کے بھی بال سفید ہو جاتے ہیں، ملکہ کائنات کی اس عظیم بیٹی نے اپنے تمام عزیزوں کو یکے بعد دیگرے شہید ہوتا ہوا دیکھا، رسول خدا(ص) کی شہادت کے بعد اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی شہادت اور ان پر ہونے والے مظالم کو دیکھا، پھر اپنے بابا حضرت امیرالمومنین(ع) کے سر پہ لگنے والی ضربت اور شہادت کا دکھ برداشت کرنا پڑا اور اس کے کچھ عرصے بعد اپنے مسموم بھائی امام حسن(ع) کی شہادت اور ان کے جنازے پر لگنے والے تیروں کو دیکھا اور پھر کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول(ص) پر ہونے والے کائنات کے سب سے بڑے مظالم کی گواہ بنیں اور رسول(ص) کی نواسی ہونے کے جرم میں قید و بند کی مصیبتوں کو برداشت کیا ـ ـ ـ ـ
لیکن ان تمام مصائب کے باوجود اپنے موقف پہ ایسے ثابت قدم رہیں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہلتے ہیں تو ہل جائیں لیکن رسول کی نواسی کی ثابت قدمی میں ذرا برابر فرق نہ آیا، اپنی گفتار اور سیرت میں ایسی شجاعت اور دلیری سے کام لیا کہ لوگوں کو حضرت علی بن ابی طالب کی شجاعت یاد آ گئی، صبر، حلم اور دانائی میں اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی شبیہ بن کر تاریخ کے صفحات پر ظاہر ہوئیںـ ـ ـ ـ ـ
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے وقت کے سب سے بڑے آمروں اور فرعونوں کے سامنے یوں گفتگو کی کہ آج بھی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اپنے تمام عزیزوں کی شہادت اور اتنی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد بھی ایک خاتون کس طرح سے ایسے عظیم خطبے دے سکتی ہے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے اپنی قوتِ گفتار کے ذریعے کوفہ و شام میں ہر بولنے والے کو خاموش کروا دیا اور اپنے خطبوں کے ذریعے امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت اور اہل بیت رسول(ص) کی عظمت کو دنیا تک پہنچایا اور یزید اور اس کی طرح کےموجودہ اور سابقہ ظالم حکمرانوں کی منافقت اور اسلام دشمنی کا پول دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔
یہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے کوفہ و شام میں دیے گئے خطبے ہی تھے کہ جنہوں نے یزیدی حکومت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور یزید ملعون جیسا دشمن اہل بیت اسیران کربلا کو واپس مدینہ بھجنےو پر مجبور ہو گیا۔
امام حسین علیہ السلام کی المناک شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی آنکھوں سے نہ تو کبھی آنسوؤں کا بہنا رکا اور نہ ہی ان کے گریہ میں کوئی کمی آئی اور نہ کربلا اور کوفہ و شام میں لگنے والے دل کے زخم محو ہوئے۔
روایت میں ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا مدینہ سے شام کا سفر کیا تو راستے میں اس درخت کے پاس سے گزریں کہ جس پر ظالموں نے اسیران کربلا کا قافلہ لاتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس لٹکایا تھا تو وہ تمام مصائب پھر سے آنکھوں کے سامنے آ گئے کہ جن کو حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے دیکھا تھا اور کربلا کے دیے ہوئے تمام زخم دوبارہ ہرے ہو گئے اور دمشق کے قریب 15رجب 66ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
ہمارا سلام ہے اس دن پر کہ جس میں حضرت زینب(ع) اس دنیا میں تشریف لائیں، سلام ہو اس دن پر جس دن آپ شہید ہوئیں سلام ہو اس دن پر جب آپ میدان محشر میں تشریف لائیں گی۔
زیارت نامہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا
السلام علیک یا بنت سلطان الانبیاء،السلام علیک یا بنت صاحب الحوض ،و اللواء ،السلام علیک یا بنت فاطمة الزھراء،السلام علیک یا بنت خدیجة الکبری ،السلام علیک یا بنت سید الوصیاء ،و رکن الاولیاء أمیر المؤمنین ،السلام علیک یا بنت ولي اللہ،السلام علیک یا أم المصائب یا زینب بنت علي و رحمة اللہ و برکاتہ ،السلام علیک أیتھا الفاضلة الرشیدة ،السلام علیک أیتھا العاملة الکاملة ،السلام علیک أیتھا الجلیلة الجمیلة ،السلام علیک أیتھا التقیة النقیة،السلام علیک أیتھا المظلومة المقھورة،السلام علیک أیتھا الرضیة المرضیة ،السلام علیک یا تالیة المعصوم ،السلام علیک یا ممتحنة فی تحمل المصائب بالحسین المظلوم،السلام علیک أیتھا البعیدة عن الآفاق ،السلام علیک أیتھا الأسیرة فی البلدان ،السلام علیک علی من شھد بفضلھا الثقلان ،السلام علیک أیتھا المتحیرة فی وقوفک فی القتلی نادیت جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،بھذا النداء:صلی علیک ملیک السماء ھذا حسین بالعراء مسلوب العمامة و الرداء ،مقطع الأعضاء ،و بناتک سبایا …السلام علی روحک الطیبة و جسدک الطاھر ،السلام علیک یا مولاتي و ابنة مولاي وسیدتي و ابنة سیدتي و رحمة اللہ و برکاتہ ،أشھد أنک قد أقمت الصلاة و آتیت الزکاة و أمرت بالمعروف و نھیت عن المنکر و أطعت اللہ و رسولہ و صبرت علی الذی فی جنب اللہ حتی أتاک الیقین ،فلعن اللہ من جحدک و لعن اللہ من ظلمک و لعن اللہ من لم یعرف حقک و لعن اللہ أعداء آل محمد من الجن و ألانس من الآولین و الآخرین و ضاعف علیھم العذاب الألیم ،أتیتک یا مولاتي و ابنة مولاي قاصدا وافدا عارفا بحقک فکونی شفیعا لي الی اللہ فی غفران ذنوبي و قضاء حوائجي ،و اعطاء سؤلي و کشف ضري ،أن لک و لأبیک و أجدادک الطاھرین جاھا عظیما و شفاعة مقبولة ،السلام علیک و علی آبائک الطاھرین المطھرین ،و علی الملائکة المقیمین فی ھذا الحرم الشریف المبارک و رحمة اللہ و برکاتہ۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: