دلہم بنت عمرو: ایسی خاتون جس نے اپنے شوہر زہیر بن قین کو امام حسین(ع) کی مدد کرنے پہ آمادہ کر کے اپنا نام تاریخ کی پیشانی پہ سنہری حروف میں لکھ دیا

انقلاب کربلا کے برپا کرنے میں جن عظیم خواتین نے حصہ لیا ان میں جناب زہیر بن قین کی زوجہ دلہم (یا دیلم) بنت عمرو بھی ہیں جنہوں نے جناب زہیر کو امام حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان کی مدد کرنے پہ آمادہ کیا۔

جناب زہیر پہلے عثمانی تھے اور اسی وجہ سے جب امام حسین(ع) نے انھیں بلایا تو وہ امام(ع) کی خدمت میں جانے کے لیے رضامند نہ تھے لیکن یہ ان کی زوجہ ہی تھیں جنہوں نے انھیں امام حسین(ع) کے پاس جانے کے لیے تیار کیا اور وہ اپنی زوجہ کے کہنے پر امام کی خدمت میں چلے آئے۔ جس کے بعد ان کی زندگی ہی بدل گئی اور وہ سعادت و خوش نصیبی کی ایسی منزلت پہ فائز ہوئے جس کی تمنا ہر مومن کرتا ہے۔

جناب زہیر کی زوجہ نے اپنے شوہر کے لیے سعادت اور حق پرستی ایسی عظیم بنیاد رکھی کہ جس کی بدولت شب عاشورا جناب زہیر نے امام سے عرض کیا تھا کہ:’’خدا کی قسم میں چاہتا ہوں ہزار مرتبہ قتل کیا جاؤں لیکن آپ اور آپ کے اہل بیت کی جان بچ جائے۔‘‘

اگر آپ کی زوجہ آپ کے جذبے کو بیدار نہ کرتی تو آپ اتنے عظیم مرتبہ پر فائز نہ ہوسکتے۔

واضح رہے زہیر بن قین بجلی’’قبیلہ بجلیہ‘‘ کے بزرگان میں سے تھے جو کوفہ میں رہتے تھے۔ آپ کوفہ کے بہادر افراد میں شمار ہوتے تھے اور مختلف جنگوں اور فتوحات میں حصہ لینے کی وجہ سے ایک خاص اجتماعی شخصیت کا حامل تھے۔ بعض تاریخی منابع میں "قین" -زہیر کے والد- کو رسول خدا(ص) کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔ زہیر امام حسین(ع) کے باوفا اصحاب میں سے تھے اور کربلا کے مقام پر واقعہ عاشوراء میں بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے۔

زہیر پہلے عثمانی تھے۔ زہیر اپنی بیوی اور بعض دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ مناسک حج سے واپس آ رہے تھے کہ کوفہ کے راستے میں کسی مقام پر ان کا امام حسین(ع) کے ساتھ آمنا سامنا ہوا۔ "دینوری" کے بقول یہ ملاقات "زَرُود" نامی جگہ پر ہوئی تھی۔

امام حسین(ع) نے کسی شخص کو زہیر کے پاس بھیجا اور اس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ زہیر نے ابتداء میں اس ملاقات میں کوئی خاص دلچسپی کا اظہار نہ کیا لیکن اس کی بیوی "دیلم" یا "دلہم" کے کہنے پر اس ملاقات پر راضی ہو گئے اور امام حسین(ع) کے محضر مبارک میں حاضر ہوئے ۔ اس ملاقات نے زہیر کی زندگی کی کایہ ہی پلٹ کر رکھ دی۔ اس ملاقات کے بعد خوشی خوشی اپنے اہل عیال اور رشتہ داروں کے پاس لوٹ کر آئے اور حکم دیا کہ اس کا خیمہ بھی امام حسین(ع) کے خیمے کے نزدیک نصب کیا جائے۔

جناب زہیر نے اپنی بیوی سے وداع کیا اور ایک قول کی بنا پر انہوں نے بیوی کو طلاق دی اور ان سے کہا: "میں امام حسین(ع) کے ساتھ شہادت کیلئے نکلتا ہوں، تم اپنے بھائی کے ساتھ اپنے والدین کے گھر چلی جا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری طرف سے تجھے خوبیوں کے علاوہ کسی غم یا مصیبت میں گرفتار ہونا پڑے۔ زہیر نے اپنی بیوی کے ساتھ وداع کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا: "جو کوئی بھی شہادت کا طالب ہو وہ میرے ساتھ آجائے ورنہ چلا جائے یہ ہماری آخری ملاقات ہو گی۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ زہیر کے چچا زاد بھائی سلمان بن مضارب نے زہیر کا ساتھ دیا اور امام حسین(ع) کے ساتھ ملحق ہو گئے۔

زہیر کا امام(ع) کے ساتھ ملحق ہونے کی کیفیت کو قبیلہ بنی فزارہ اور بجیلہ کی ایک جماعت نے یوں نقل کیا ہے: "ہم زہیر بن قین کے ساتھ مکہ سے حج کرکے واپس آرہے تھے اور جب بھی امام حسین(ع) کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو ہم کسی اور جگہ پڑاؤ ڈالتے تھے لیکن بعض منازل پر ناچار ہمیں بھی اسی جگہ پڑاؤ ڈالنا پڑتا جس مقام پر امام حسین(ع) نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ منزل زرود پر جب پہنچے تو امام حسین(ع) نے اپنا قاصد ہمارے پاس بھیجا۔

امام حسین(ع) نے حر کے لشکر کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کے بعد ذو حُسَم نامی جگہ پر ایک خطبہ دیا جس میں دنیا کے حالات اور اس پر معاشرے پر حاکم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور دنیاوی زندگی کے پست اور حقیر ہونے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: "...کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے منع نہیں کیا جا رہا، ایسے میں مؤمن کو حق کا حامی اور اپنے پروردگار کی ملاقات کیلئے تیار ہونا چاہیے۔ میں موت کو شہادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ذلت اور رسوائی کے کچھ نہیں سمجھتا ہوں۔

امام(ع) کی تقریر ختم ہونے کے بعد زہیر پہلے شخص تھے جنہوں نے امام عالی مقام کے فرمائشات پر عمل پیرا ہونے کیلئے اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یابن رسول اللہ! ہم نے آپ کے کلام میں موجود بلند و بالا معارف کو سنا، اے فرزند رسول خدا(ص) اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہم ہمیشہ اس دنیا میں زندہ رہیں گے اور اس کے تمام سہولیات سے متفید ہوں گے تو پھر بھی ہم آپ کے ہم رکاب ہو کر شہید ہونے کو ترجیح دیتے"۔ اس موقع پر امام حسین(ع) نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور انھیں اپنی لطف و مہربانی سے مستفید کرایا۔

امام حسین(ع) کا قافلہ2محرم کو سرزمین نینوا پر پہنچا تو حر بن یزید ریاحی کے پاس عبیداللہ بن زیاد کا خط آیا جس میں ابن زیاد نے حر سے کہا: "جب میرا قاصد میرا خط لے کر تہمارے پاس پہنچے تو حسین(ع) کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور اسے کسی بیابان میں قیام کرنے پر مجبور کرو۔ میں نے قاصد کو حکم دیا ہے کہ تم سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ میرے احکامات کے اجراء کرنے کی خبر مجھ تک پہنچا دے ۔

حر نے خط کے مضمون سے امام حسین(ع) کو آگاہ کیا تو امام(ع) نے اس سے فرمایا: "مجھے سرزمین "نینوا" یا غاضریہ یا شُفَیہ میں قیام کرنے دو۔"

حر نے کہا: "نا ممکن ہے، کیونکہ عبیداللہ نے اس خط لانے والے قاصد کو مجھ پر جاسوس مقرر کیا ہے"۔

زہیر نے کہا: یابن رسول اللہ(ص)! ابھی اس مختصر جماعت [حر کا لشکر] کے ساتھ جنگ کرنا ہمارے لئے اُس لشکر سے آسان ہے جو ان کے بعد ہم سے لڑنے آئے گا۔ امام(ع) نے فرمایا: "ہم جنگ میں پہل کرنے والے نہیں بنیں گے۔

زہیر نے کہا: "یہاں سے نزدیک فرات کے کنارے ایک آبادی ہے جو قدرتی طور ایک مستحکم جگہ ہے ہم وہاں پڑاؤ ڈالیں گے۔ امام حسین(ع) نے اس جگہ کا نام پوچھا تو زہیر نے کہا اس کا نام عقر ہے۔ امام(ع) نے فرمایا: "میں خدا کی پناہ مانگتاہوں "عقر!" سے۔

نو محرم کے دن عصر کو جب عمر بن سعد کی فوج نے امام حسین(ع) کے خیموں کی طرف جنگ کرنے بڑھی تو امام حسین(ع) نے اپنی بھائی حضرت عباس(ع) کو بلایا اور فرمایا کہ ان کے پاس جا کر ان کا مقصد دریافت کریں کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔

حضرت عباس(ع) نے تقریبا 20 افراد منجملہ زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر کو لے کر دشمن کی فوج کی طرف گئے اور ان سے کہا کہ تم لوگ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر آپ لوگ یزید کی بیعت نہ کریں تو ہمیں آپ لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عباس(ع) نے فرمایا: مجھے مہلت دے دو تاکہ میں تمہارا پیغام امام حسین (ع) تک پہنچا دوں۔ انہوں نے قبول کیا اور حضرت عباس کے جانے کے بعد جواب کا انتظار کرنے لگے۔

اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین نے عمر سعد کی فوج کو نصیحت کرنا شروع کی۔ حبیب بن مظاہر نے ان سے عترت پیغمبر(ص) اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے پرہیز کرنے کو کہا۔ عزرہ بن قیس- جو عبیداللہ بن زیاد کی فوج میں سے تھا- نے حبیب سے مخاطب ہو کر کہا: جتنا ہو سکے اپنی تعریف کرو۔ زہیر بن قین نے ان کے جواب میں کہا: "اے عزرہ خداوند متعال نے انہیں پاکیزہ اور ان کی ہدایت فرمائی ہے خدا سے ڈرو اور یہ جان لو کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ خدا کیلئے نیک اور صالح بندوں کو قتل کرنے میں گمراہوں اور ظالموں کی مدد کرنے والے افراد میں سے مت ہو جاؤ۔" عزرہ نے کہا: اے زہیر! تم تو اس خاندان کے شیعہ اور پیروکاروں میں سے نہیں تھا بلکہ تم تو عثمان کے پیروکارں میں سے تھے۔ زہیر نے کہا: "آیا میرا یہاں ہونا میرے ان کے ساتھ ہونے کی نشانی نہیں ہے۔ جان لو خدا کی قسم میں نے ہرگز حسین بن علی(ع) کو کوئی خط نہیں لکھا اور نہ کوئی قاصد ان کی طرف بھیجا ہے اور نہ کبھی ان کی مدد کرنے کا وعدہ دیا ہے لیکن راستے نے مجھے اور ان کو ایک ساتھ جمع کیا اور جب میں نے ان کو دیکھا تو رسول خدا(ص) اور ان کے ہاں امام حسین(ع) کے مقام و منزلت کی یاد تازہ ہوئی اور میں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ ان کی مدد کے لیے ان کے ساتھ رہوں اور اپنی جان ان کی جان پر قربان کردوں۔

شب عاشور کو امام حسین(ع) نے جب اپنے اصحاب اور اپنی اہل بیت(ع) سے اپنی بیعت اٹھا لی اور انہیں ساتھ چھوڑ کر جانے اور اپنی جان بچانے کی اجازت دے دی تو آپ کے باوفا اصحاب میں سے ہر ایک نے اپنی وفاداری اور ثابت قدمی کا اظہار کیا۔ آپ(ع) کے اہل بیت(ع) کی گفتگو کے بعد مسلم بن عوسجہ اور ان کے بعد زہیر بن قین نے کھڑے ہو کر عرض کیا: "خدا کی قسم مجھے مارا جائے پھر زندہ کیا جائے اور پھر دبارہ مار دیا جائے اس طرح ہزار مرتبہ بھی مجھے مارا جائے لیکن آپ(ع) اور آپ کے اہل بیت(ع) کو خدا محفوظ رکھے تو مجھے یہ چیز پسند ہے۔

صبح عاشور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد امام حسین(ع) نے اپنے اصحاب اور لشکر کو منظم اور مرتب کیا۔ زہیر کو دائیں بازوں اور حبیب بن مظاہر کو بائیں بازو کی قیادت اور اپنے بھائی حضرت عباس(ع) کو لشکر کا علم سونپ دیا۔

روز عاشورا جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے تو جنگ شروع ہونے سے پہلے امام(ع) نے دشمن کے سپاہیوں کو نصیحت کرنا شروع کی۔

امام(ع) کی تقریر کے بعد زہیر بن قین نے امام(ع) سے کچھ گفتگو کرنے کی اجازت طلب کی اور کوفہ والوں سے مخاطب ہو کر کہا: "اے کوفہ والو! میں تمہیں خدا کے عذاب سے ڈراتا ہوں کیونکہ مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور ایک دوسرے کیلئے خیر اور نیکی طلب کریں۔ جب تک تلوار ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ نہ کرے اس وقت تک ہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ایک دین کے پیروکار اور ایک ہی قوم ہیں اس بنا پر ہمارے اوپر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہیں نصیحت کریں لیکن جب تلوار ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے اور ہمارے اور تمہارے درمیان موجود رشتے کو توڑ ڈالے تو اس وقت ہم ایک ملت ہیں اور تم دوسری ملت۔ جان لو کہ خدا نے ہمیں پیغمبر اکرم(ص) کے اہل بیت(ع) کے ذریعے آزمایا ہے تاکہ یہ دیکھے کہ ہم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ میں تمہیں ان کی حمایت اور عبیداللہ بن زیاد کے خلاف بغاوت کی دعوت دیتا ہوں۔ تم لوگوں نے عبیداللہ بن زیاد اور ان کے باپ کی حکومت سے برائی اور ظلم کے سوا کچھ نہیں پایا ہے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے تمہاری آنکھیں نکال دی تھیں، تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے تھے، تمہیں مثلہ کر ڈالا تھا اور تمہارے بزرگوں اور قاریوں جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ہانی بن عروہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کو سولی پر چڑا دیا تھا۔"

عمر سعد کی فوج نے زہیر کو گالیاں اور عبیداللہ بن زیاد کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "خدا کی قسم ہم یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تمہارے مولا {امام حسین(ع)} کو قتل یا انہیں عبیداللہ کے حوالے نہ کریں۔"

زہیر نے کہا: "اے بندگان خدا، فاطمہ(س) کا لخت جگر دوستی اور حمایت کرنے میں سمیہ کے بیٹے سے زیادہ سزاوار ہے اور اگر اس کی مدد اور حمایت نہیں کرتے ہو تو خدا سے ڈرو اور ان کے خون سے اپنے دامن کو بچاؤ۔ آؤ حسین ابن علی(ع) کو یزید بن معاویہ کے ساتھ اپنے حال پر چھوڑ دو میری جان کی قسم حسین(ع) کی قتل کے بغیر بھی یزید تمہاری فرمانبرداری پر راضی ہے۔"

کوفیوں کے ہاں زہیر ایک دلیر اور ممتاز شخصیت کا حامل تھے۔ اسی وجہ سے روز عاشور کی صبح اوائل جنگ میں جب "زیاد بن ابیہ" اور "عبیداللہ بن زیاد" کے دو غلام "سالم" اور "یسار" کی طرف سے مبارزہ کیلئے پکارا گیا اور ان کے ساتھ مقابلہ کیلئے جب عبداللہ بن عمیر کلبی چلا گیا تو انہوں نے کہا ہم تمہیں نہیں پہچانتے جاؤ زہیر بن قین یا حبیب ابن مظاہر میں سے کسی ایک کو ہمارے ساتھ جنگ کیلئے بھیج دو۔زہیر اپنی جگہ سےاٹھے تاکہ ان دونوں کے جنگ طلبی کا جواب دیں لیکن امام حسین(ع) نے زہیر کو جنگ کی اجازت نہ دی اور عبداللہ بن عمیر کو ہی ان کے ساتھ مقابلہ کیلئے بھیج دیا۔

جنگ کے آغاز سے ہی شمربن ذی الجوشن نے اپنے ساتھیوں سمیت خیموں کے پشت سے امام حسین(ع) کے خیموں پر حملہ کیا اس نے ایک نیزے کے ساتھ امام حسین(ع) کے خیمے پر وار کیا اور کہا: "آگ لے آؤ تاکہ اس گھر کو اس کے مکین سمیت آگ لگا دی جائے۔" اس حالت کو دیکھ کر امام(ع) نے باآواز بلند فرمایا: "اے ذی الجوشن کے بیٹے! کیا تم آگ طلب کر رہے ہو تاکہ میرے گھر کو میرے خاندان سمیت آگ لگا دی جائے؟ خدا تجھے آگ میں جلا ڈالے۔"

اس وقت زہیر نے اپنے دس ساتھیوں سمیت شمر اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور ان کو وہاں سے بھگا دیا۔

حبیب بن مظاہر کی شہادت کے بعد زہیر اور حر بن یزید ریاحی اکٹھے میدان کی طرف چلے گئے۔ وہ دونوں جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور جب بھی ان میں سے ایک دشمن کے نرغے میں آتا تو دوسرا اس کی مدد کیلئے پہنچ جاتا۔ یہ دونوں پے در پے جنگ میں مشغول تھے یہاں تک کہ حر شہید ہو گئے جس کے بعد زہیر بھی خیمہ گاہ کی طرف لوٹ کر آئے۔

ظہر کی نماز کے وقت جب امام حسین(ع) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوئے تو زہیر بن قین اور "سعید بن عبداللہ حنفی" امام(ع) کی حفاظت کیلئے آگے بڑھے۔ انہوں نے خود کو دشمن کے تیروں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اس طرح امام(ع) اور دوسرے نماز گزاروں نے اپنی نماز قائم کی۔

امام(ع) سے اجازت طلب کرنے کے بعد زہیر میدان کی طرف بڑھےاور یہ رجز پڑھا:

أنا زهير وأنا ابن القين

أذودكم بالسيف عن حسين

ترجمہ: میں قین کا بیٹا زہیر ہوں اور اپنی تلوار سے تمھیں امام حسین(ع) سے دور کروں گا۔

جناب زہیر نے دشمن پر پے در پے حملے کرنا شروع کر دیے سامنے آنے والے ہر شخص کو جہنم واصل کرتے رہے پھر کچھ دیے جنگ کرنے کے بعد دوبارہ امام حسین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ شعر پڑھے:

فدتك نفسي هادياً مهدياً

اليوم ألقى جدّك النبيا

وحسناً والمرتضى علياً

وذا الجناحين الشهيد الحيا

ترجمہ: میری جان آپ پہ قربان ہو جائےاے ہدایت دینے والے رہنما، آج میں آپ کے جد نبی اکرم(ص) سے ملاقات کروں گا۔ اسی طرح حسن مجتبی(ع)، علی مرتضی(ع) اور دو پروں والے (جعفر طیار) زندہ شہید سے ملوں گا۔"

اس کے بعد جناب زہیر میدان جنگ کی طرف پھر سے لوٹ گئے اور دوبارہ جنگ شروع کر دی۔ نقل ہوا ہے کہ جناب زہیر نے عاشور کے دن میدان جنگ میں دشمن کے 120 افراد کو ہلاک کیا۔آخر کار زہیر جنگ کرتے ہوئے کثیر بن عبداللہ شعبی اور مہاجر بن اوس تمیمی کے ہاتھوں شہید ہو کر شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔

امام حسین(ع) نے زہیر کی شہادت کے بعد فرمایا: اے زہیر خدا تمہیں اپنی رحمت سے دور نہ کرے اور تمہارے قاتلوں پر خدا کی لعنت ہو، اور تمہارے قاتلوں کو بنی اسرائیل کے مسخ شدہ افراد کی طرح ہمیشہ کیلئے اپنی لعنت میں گرفتار کرے۔

زیارت ناحیہ مقدسہ میں دو مقام پر زہیر کا نام آیا ہے: سلام ہو زہیر بن قین بجلی پر وہ مرد مجاہد جسے امام حسین(ع) نے واپس جانے کی اجازت دے دی تو اس نے کہا: نہیں خدا کی قسم میں ہرگز رسول خدا(ص) کے بیٹے کو جس پر خدا کا درود و سلام ہو، تنہا نہیں چھوڑوں گا، آیا رسول خدا(ص) کے بیٹے کو دشمن کے نرغے میں اسیری کی حالت میں چھوڑ دوں اور اپنے آپ کو نجات دے دوں؟ خدا مجھے ایسا دن نہ دکھائے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: