داعش کے خلاف یہ فتح آپ کی فتح ہے اور اس کا حصول بھی آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہو پایا ۔(اعلی دینی قیادت)

اعلی دینی قیادت کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف یہ فتح آپ کی فتح ہے اور اس کا حصول بھی آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہو پایا اور آپ ہی اصحاب فتح و نصرت ہیں لہٰذا میں آپ کو مبارک باد اور خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں بے شک بابرکت ہے آپ کا وجود اور آپ کے وہ بازو کہ جن کے ذریعے سے آپ نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی ، بے شک بابرکت ہیں وہ جھولیاں کہ جن میں آپ نے تربیت حاصل کی ، آپ نے پوری اقوام عالم میں ہمیں فخر اور عزت فراہم کی ۔

اس بات کا اظہار نجف اشرف میں موجود اعلیٰ دینی قیادت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ الوارف کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی(دام عز) نے 26 ربیع الاول 1439 ھ بمطابق 15 دسمبر 2017ء کو صحن حسینی میں نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں کیا۔

علامہ کربلائی نے اس خطبہ میں کہا کچھ دن پہلے عراق کے آخری حصہ کو بھی داعش سے آزاد کرائے جانے اور داعش کے خلاف جنگ میں مکمل فتح کا اعلان کیا گیا لہٰذا آج اسی مناسبت سے آپ کی سماعتوں کی نذر کچھ گفتگو کو کرنا چاہتا ہوں۔

اے اصحاب شرف اے اہل ِ عراق تین سال سے زیادہ شدید ترین لڑائی، اپنی قیمتی سے قیمتی چیز قربان کرنے ، مختلف مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے بعد آپ نے طاقت ور ترین دہشت گرد تنظیم پر فتح حاصل کی ہے اس تنظیم نے عراق کے ماضی، حال اور مستقبل کو تباہ کرنے کے لیے اسے اپناہدف بنایا اور آپ نے اپنے مضبوط ارادے اور اپنے وطن، اپنی عزت اور اپنے مقدسات کی حفاظت کے پختہ عزم کے ذریعے ان دہشت گردوں کو شکست دی آپ نے اپنی بے انتہاء قربانیوں کی ذریعے ان دہشت گردوں کو ناکام اور نامراد بنایا آپ نے اس مقصد کے لیے اپنی جانوں، اپنے جگر کے ٹکڑوں اور اپنی ملکیت میں ہر قیمتی چیز کو اس وطن پر فدا کر دیا آپ نے بہادری اور ایثار و قربانی کی بلند ترین تصویر کھینچی اور جدید ترین عراق کی تاریخ کو عزت اور کرامت کے الفاظ کے ساتھ درج کیا پوری دنیا آپ کے مضبوط ارادہ ، صبر ، ثابت قدمی اور پختہ ایمان پر حیران کھڑی ہے اور بالآخر آپ نے وہ عظیم فتح حاصل کی کہ جس کے بارے میں بہت سے لوگ گمان کر رہے تھے کہ اس کا حصول نا ممکن ہے لیکن آپ نے انتہائی کم مدت میں اسے حقیقت کا روپ دیا اور اس کے ذریعے سے آپ نے اپنے وطن کی عزت و ناموس اور عوام کو محفوظ بنایا اور یقنا آپ ایک عظیم ترین قوم ہیں۔

مختلف عناوین اور اصناف میں داعش کے خلاف لڑنے والے محترم جنگجووں ،اے مسلح فوجیو جہاد و دفاعی کفائی کا فتوی دینے والی اعلی ٰ دینی قیادت نے اپنے ہر ممکن وسائل کے ذریعے داعش کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کی اور حوزہ علمیہ کے طلاب و اساتذہ میں سے اپنے نیک ترین بیٹوں کو آپ کی مدد کے لیے بھیجا اور ان میں سے سینکڑوں نے اسی راہ میں جام شھادت نوش کیا ۔ اعلی دینی قیادت سمجھتی ہے کہ اس تاریخی کارنامے کے حصول میں آپ کی فضیلت اور کوششوں کی برابری کوئی نہیں کر سکتا اگر آپ مرجعیت کے فتوی اور پکار پہ لبیک نہ کہتے میدان جنگ میں بہادری اور ثابت قدمی نہ دیکھاتے تو یہ فتح و نصرت حاصل کرنا ممکن نہ ہوتا اس لیے یہ فتح آپ کی فتح ہے اور اس کا حصول بھی آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہو پایا اور آپ ہی اصحاب فتح و نصرت ہیں لہٰذا میں آپ کو مبارک باد اور خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں بے شک بابرکت ہے آپ کا وجود اور آپ کے وہ بازو کہ جن کے ذریعے سے آپ نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی ، بے شک بابرکت ہیں وہ جھولیاں کہ جن میں آپ نے تربیت حاصل کی ، آپ نے پوری اقوام عالم میں ہمیں فخر اور عزت فراہم کی ۔

کتنا ہی خوش قسمت ہے عراق اور آپ کی بدولت ہم بھی کتنے خوش قسمت ہیں ..... آپ نے اپنی جانوں کو اپنے وطن اپنی عوام اور اپنے مقدسات کی خاطر قربانی کے لیے پیش کیا ہم آپ کی کاوشوں کی وجہ سے اپنے اوپر واجب ہونے والے حق کی مکمل ادائیگی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام کی بہترین جزاء عطا کرے گا، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی خیرو برکت سے مالا مال فرمائے اور آپ کو محسنین کی بہترین جزاء سے نوازے۔

آج ہم مزید احترام و تعظیم کے ساتھ اپنے شھداء ابرار کا ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے پاکیزہ خون کی نہروں سے اس وطن کی سرزمین کو سیراب کیا بے شک یہی وہ افراد ہیں کہ جو ایثار و قربانی کا عظیم ترین نمونہ عمل ہیں ، آج ہم ان محترم خاندانوں ، ان آباء اجداد، ان ماؤں ، ان زوجات ، ان بچوں ،ان بھائیوں اور بہنوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے عزیز ترین رشتے داروں کی خبر شھادت کو سنا اور اب تک انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ اپنے عزیزوں کے فراق کا درد برداشت کر رہے ہیں ، آج ہم فخر و احترام کے ساتھ اس جنگ میں زخمی ہونے والے اپنے عزیزوں کا ذکر کرتے ہیں خاص طور پہ جو ہمیشہ کے لیے معذوری سے دوچار ہو کر زندہ شہداء کہلائے بے شک اللہ چاہتا ہے کہ یہ زندہ شہداء ہمارے درمیان اس عظیم بہادری کے شاہد بن کر باقی رہیں کہ جو دنیا کے شریف ترین دہشت گردوں کے خلاف نظر آئی بے شک آپ وہ قوم ہیں جس نے اپنے بیٹوں کو قربان کر کے عالمی دہشت گردوں کے خلاف فتح و نصرت حاصل کی، ہم انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ان تمام اہل وطن کا ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے میدان جنگ میں لڑنے والے اپنے بھائیوں کے حوصلوں کو بلند رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے بے شک یہی لوگ بہترین مدد گار اور پشت پناہ ثابت ہوئے ، ہم انتہائی شکر و تقدیر کے ساتھ ان تمام احباب کا ذکر کرتے ہیں کہ جن کا مفکر ، مثقف ، طبیب ،شاعر ،کاتب ، صحافی وغیرہ کی حیثیت سے اس معرکہ میں کوئی بھی مثبت کردار رہا ، اسی طرح سے ہم ان تمام دوستوں کا بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ جو داعشی دہشت گردوں کے خلاف عراق اور اہل عراق کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ان کے بہترین مدد گار ثابت ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو اشرار کے شر سے محفوظ رکھے اور انہیں امن و سلامتی کی نعمت سے مالا مال کرے۔

اس موقع پر ہم چند امور کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

پہلا امر:۔ داعش کے خلاف یہ فتح و نصرت دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف آخری معرکہ نہیں ہے بلکہ یہ معرکہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا میں شدت پسند افکار کو گلے لگانے والے لوگ موجود ہیں یہ شدت پسند اپنے خبیث اہداف کی خاطر دوسروں کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ رہنا قبول نہیں کرتے اور نہ ہی نہتے شہریوں کا خون بہانے ، بچوں اور عورتوں کو قیدی بنانے اور شہروں کو تباہ کرنے سے پیچھے ہٹتے ہیں بلکہ اپنے غلط گمان کے مطابق ان درندہ و وحشی افعال کو خدا کی قربت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں ۔لہٰذا اس مستمر خطرے سے نبٹنے میں سستی کرنے سے خبر دار رہیں اور پوشید ہ دہشت گردوں اور ان کے خفیہ نیٹ ورک کو ختم کرنے پہ توجہ دیں یہ دشت گرد اس ملک کے امن و امان اور استقرار کو تباہ کرنے کے لیے ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔دہشت گردوں کی فکری و دینی جڑوں ، افرادی و مالی قوت ، میڈیا معاونت اور پشت پناہوں کو ختم کرنا واجب ہے اور اس کام کے لیے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس پر مشتمل دقیق ترین منصوبہ اور عمل کی ضرورت ہے تا کہ صحیح و مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ضروری ہے کہ دہشت گرد اور شدت پسند افکار کے بطلان کو ثابت کرنے اور اس کے دین اسلام سے خارج ہونے کے حوالے سے کام کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اعتدال پسند افکار کی معاشرے میں نشرواشاعت کی جائے ۔اور اسی طرح سے داعش سے آزاد کروائے جانے والے علاقوں میں معیشت کو مضبوط کرنے اور تعمیر و ترقی کے لیے کام کیا جائے اور آر پی ڈیز کو عزت و احترام کے ساتھ اپنے علاقوں میں دوبار ہ سے زندگی گزارنے کے قابل کیا جائے اور اس بات کی ضمانت فراہم کی جائے کہ ان کے دستوری حقوق انہیں فراہم کیے جائیں گے اور گزشتہ غلطیوں کا اعادہ نہیں جائے گا ۔

دوسرا امر:۔اب بھی عراق کے سیکیورٹی نظام کو ایسے بہت سے بہادروں اور دلیر افراد کی ضرورت ہے ک جنہوں نے ماضی میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس کو کی مدد کی اور مختلف محاذوں پر ان کے ساتھ مل کر جنگ کی اور مشکل ترین حالات میں ثابت قدم رہے بے شک ان افراد نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی سر زمین، عزت و ناموس اور مقدس اشیاء کا دفاع کرنے کے قابل ہیں انہوں نے میدان جنگ میں وہ کارنامے سر انجام دئیے کہ جسے دیکھ کر اب تک پوری دنیا حیران ہے ۔ خاص طور پر عراق کے سیکیورٹی نظام کو ان نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے کہ جنہوں نے اس عرصے کے دوران مختلف عسکری و انٹیلی جنس آپریشن میں شرکت کی اور جنگی و فنی مہارت کو حاصل کیا اور ڈسپلن ، شجاعت ،حب الوطنی اور ایمان کی بہترین مثال ثابت ہوئے انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کسی قسم کی سستی یا لاپرواہی سے کام نہ لیا ۔ضروری ہے قانون اور دستور کے دائرہ میں رہ کر ان صلاحیتوں سے مسلسل مدد لی جائے بے شک دستور ہی اسلحہ کو حکومت کے ہاتھوں میں باقی رکھنے اور وطن کی حفاظت ، اس کے حاضر اور مستقبل کو بچانے اور کسی بھی نئی دہشت گرد کاروائی کو روکنے کے سلسلہ میں ان بہادر نوجوانوں سے استفادہ کی صحیح سمت معین کر سکتا ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: