دو محرم کو امام حسین(ع) کی کربلا آمد کی یاد میں مواکب عزاء

کربلا میں دو محرم کو ماتمی جلوس اور مواکب عزاء امام حسین(ع) کے کربلا میں ورود کی یاد مناتے ہیں اور مجالس میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔

واضح رہے جب امام حسین(ع) نینوی میں پہنچے تو ابن زياد کا قاصد وہاں آ پہنچا جس نے ابن زیاد کا خط حر کے حوالے کیا جس میں اس نے لکھا تھا: " جونہی میرا خط تم تک پہنچے اور میرا قاصد تمہارے پاس آئے تو حسین پر سختی کرو اور انہیں مت اتارو مگر لق و دق اور بےآب و گیاہ زمین پر! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ تم سے جدا نہ ہو تاکہ وہ میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔

حر نے ابن زياد کا خط امام حسین(ع) کو پڑھ کر سنایا، امام(ع) نے فرمایا: "ہمیں "نینوی'" یا "غاضریہ" میں اترنے دو"۔

حر نے کہا: "یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عبید اللہ یہ خط پہنچانے والے قاصد کو مجھ پر جاسوس قرار دیا ہے!"

زہیر نے کہا:"خدا کی قسم! مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے بعد ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ یابن رسولِ اللہ! اس وقت اس گروہ(حر اور اس کے ساتھیوں) کے ساتھ لڑنا زیادہ آسان ہے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی نسبت، جو ان کے پیچھے آرہے ہیں؛ میری جان کی قسم! ان کے پیچھے ایسے افراد آرہے ہیں جن کے ساتھ لڑنے کی طاقت ہمارے پاس نہيں ہے"۔امام(ع) نے فرمایا: "درست کہہ رہے ہو اے زہیر؛ لیکن میں جنگ شروع کرنے والا نہ ہونگا"۔زہیر قریب ہی فرات کے کنارے ایک بستی ہے جہاں حفاظت کے لئے قدرتی انتظام موجود ہے اور اس کو ایک طرف کے ساتھ تمام اطراف سے فرات نے گھیر لیا ہے"۔امام حسین(ع) نے فرمایا: "اس بستی کا نام کیا ہے؟"عرض کیا: اس کا نام] "عقر" [ہے ۔امام (ع) نے فرمایا: "خدا کی پناہ مانگتا ہوں عقر سے!"۔ پس ساتھ ساتھ چلتے رہے حتی کہ "کربلا" پہنچ گئے۔ حر اور اس کے ساتھی امام حسین(ع) کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا۔

امام حسین(ع) کربلا میں آمد

بیشتر تاریخی منابع نے اپنی روایات میں پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کے کربلا میں اترنے کی تاریخ قرار دیا ہے۔

جب حر نے امام(ع) سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے"۔امام(ع) نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟"۔

سب نے کہا: كربلا۔ فرمایا: یہاں كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ میرے والد صفین کی طرف عزیمت کرتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اور آپ نے فرمایا: "یہاں، یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے"، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "خاندان محمد(ص) کا ایک قافلہ یہاں اترے گا"۔ امام حسین(ع) نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان وہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم کا دن تھا۔

منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسین(ع) نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا: اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين ۔ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے نبی(ص) کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہ(ص) کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما"۔

اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ان الناس عبيد الدنيا، والدين لعق على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون"۔ ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں ۔

اس کے بعد امام(ع) نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4×4میل تھا ـ نینوی' اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔

دو محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسین(ع) اور اصحاب کربلا میں حسین(ع) کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، حر بن يزيد ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔ حرکا خط موصول ہونے پر عبید اللہ نے ایک خط امام حسین(ع) کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا: امّا بعد، اے حسین(ع)! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید بن معاویہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام"۔

مروی ہے کہ امام حسین(ع) نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا: جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے"۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا ۔

قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسین(ع) کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امام(ع) کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: