جناب مسلم بن عوسجہ: رسول خدا(ص) کے صحابی جنہوں نے امام حسین(ع) کی نصرت میں مقام شہادت حاصل کیا

رسول خدا(ص) کے جن اصحاب نے کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کی نصرت میں مقام شہادت حاصل کیا ان میں سے ایک جناب مسلم بن عوسجہ بھی ہیں جن کا تعلق قبیلہ "بنی اسد" سے تھا. ان کی کنیت "ابو حجل" مذکور ہوئی ہے. واقعۂ کربلا سے پہلے جناب مسلم بن عقیل کے قیام میں قبیلہ مذحج اور بنی اسد کی سربراہی ان کے ہاتھ میں تھی. آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلا میں موجود تھے اور آپ کا بیٹا بھی کربلا کے شہیدوں میں سے ہے.

آپ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ صدر اسلام کے ان شجاعان عرب میں سے ہیں جنہوں نے آذربائیجان اور دیگر علاقوں کی فتح میں مسلمان لشکر کی ہمراہی کی۔ آپ نے رسول اللہ(ص) سے روایات بھی نقل کی ہیں۔

بعض منابع کے مطابق جناب مسلم بن عقیل کوفہ میں پہلے مسلم بن عوسجہ کے گھر مقیم ہوئے اور ان کے گھر میں لوگ جناب مسلم بن عقیل سے ملنے اور حضرت امام حسین ؑ کی بیعت کرتے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ کے اہل خانہ بھی کربلا میں موجود تھے ۔مؤرخین کے بقول خلف بن مسلم بن عوسجہ آپ کا ہی بیٹا تھا جو اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوا۔تاریخ میں یوں مذکور ہے کہ ایک جوان حضرت امام حسین ؑ کی حمایت میں خیمہ سے باہر آیا تو اس کی والدہ بھی اس کے پیچھے آئی یہ نوجوان مسلم بن عوسجہ کا ہی بیٹا تھا۔

شب عاشور

شب عاشور جب امام حسین ؑ نے اپنی بیعت سے اپنے ہمراہیوں کو آزاد کر دیا تو سب لوگ اپنی اپنی محبت اور وابستگی کے مطابق حضرت کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے ۔ بنی ہاشم کے نوجوانوں کے بعد جناب مسلم بن عوسجہ کھڑے ہوئے اور فرمایا:

اے ابا عبد اللہ ! کیا آپ ہمیں اپنی بیعت سے آزاد کر رہے ہیں؟ بارگاہ الہی میں اس اپنے حق کی ادائیگی کا ہم کیا جواب دیں گے؟ ہم آپ کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے کسی صورت نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ میں اپنا نیزہ دشمنوں کے سینوں میں پیوست نہ کر دوں اور اس قدر شمشیر نہ چلا لوں کہ وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ جائے حتی کہ ہاتھ میں اسلحہ نہ ہونے کی صورت میں دشمنوں پر پتھروں سے حملہ آور ہوں ۔ خدا کی قسم! آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ خدا کے سامنے یہ ثابت نہ کر دوں کہ میں نے آپ کے بارے میں احترام رسول اللہ کی پاسداری کی ہے۔ اللہ کی قسم! اگر میں یہ جان لوں کہ میں قتل ہو جاؤں گا پھر زندہ کیا جاؤں گا پھر مجھے جلا کر خاکستر کردیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے گا اور ایسا ستر مرتبہ کیا جائے گا تو تب بھی میں کسی صورت میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ آپ کی نصرت میں شہادت کے درجے پر فائز ہو جاؤں۔ جب مجھے ایک بار زندگی ملی ہے تو میں کیوں نہ ایسا کروں ۔ اس کے بعد ہمیشہ کی خوشبختی اور کرامت ہے۔

شیخ مفید نے نقل کیا ہے: روز عاشورا حضرت امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب نے خیام کی حفاظت کیلئے خیام کی پشت پر خندق کھود کر آگ روشن کی ۔ شمر بن ذی الجوشن نے آگے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہا : اے حسین ! قیامت سے پہلے ہی آگ جلا لی ہے ۔امام نے فرمایا : یہ کون ہے لگتا ہے شمر ہے ؟ جواب دیا گیا ہاں وہی ہے ۔امام نے سورۂ مریم کی 70ویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اے چرواہے کے بیٹے!تو اس آگ کیلئے سزاوار ہے ۔ مسلم بن عوسجہ نے فرزند رسول سے اسے تیر مارنے کی اجازت طلب کی اور کہا وہ میرے تیر کی مار میں ہے اور میرا تیر خطا نہیں جائے گا۔ امام نے جواب میں فرمایا : میں جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتا لہذا تیر مت مارو۔

مسلم بن عوسجہ نے کربلا میں مبارزے کے موقع پر یہ اشعار پڑھے:

إن تسألوا عني فإني ذو لبد

وإن بيتي في ذري بني أسد

فمن بغاني حائد عن الرشد

وكافر بدين جبار صمد

ترجمہ: اگر میرے بارے میں سوال کرتے ہو تو میں وہی صاحب شجاعت شیر ہوں اور بنی اسد میرا قبیلہ ہے ۔جو بھی مجھ پہ ستم کرے گا وہ حق سے روگردان ہے اس نے خدائے بے نیاز سے کفر کیا ہے ۔

شہادت

روز عاشور عمر بن سعد نے لشکر کے دائیں حصے کا علم عمرو بن حجاج کے سپرد کیا تھا اس حصے نے حضرت امام حسین کے اصحاب با وفا پر حملہ کیا ۔دونوں میں لڑائی شروع ہوئی تو دونوں طرفیں اسی دوران فرات کی طرف چلے گئے ۔ مسلم بن عوسجہ اس حملہ میں موجود تھے ۔مسلم بن عبد اللہ ضبائی اور عبدالرحمان بن ابی خشکارہ نے مسلم بن عوسجہ پر حملہ کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا ۔حضرت مسلم بن عوسجہ جب خون میں غلطان تھے تو حضرت امام حسین اور حبیب بن مظاہر آپ کے سرہانے پہنچے ۔امام نے اسے کہا :اے مسلم! خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ اور پھر اس آیتفَمِنهُم مَن قَضی نَحبَهُ و مِنهُم مَن یَنتَظِر و ما بَدّلوا تَبدیلاً کی تلاوت فرمائی۔ حبیب بن مظاہر اسکے قریب ہوئے اور کہا :تمہارا قتل ہونا میرے لئے نہایت سخت ہے لیکن میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔مسلم بن عوسجہ نہایت نحیف آواز میں کہا: میں بھی تمہیں خیر کی بشارت دیتا ہوں ۔ حبیب نے کہا: اگر تمہاری خدا حافظی کا وقت قریب نہ ہوتا میں تم سے خواہش کرتا کہ تم مجھے وصیت کرو تاکہ میں حق دینی اور رشتہ داری کا حق ادا کرتا۔ مسلم بن عوسجہ نے امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حبیب سے کہا:میں تمہیں اس شخص(یعنی امام حسین ؑ) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے بدن میں جان باقی ہے اس کا دفاع کرنااور اپنے قتل ہونے تک اس کی مدد اور حمایت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ حبیب نے جواب میں کہا : میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور تمہاری آنکھوں کو روشن کروں۔

زیارت ناحیہ کے مطابق مسلم بن عوسجہ ان پہلے شہداء میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے پیمان وفا کو پورا کیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: