22 جمادی الاول: جناب قاسم بن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شھادت کا دن

آج 22 جمادی الاول ہے کہ جس میں جناب قاسم بن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے وفات پائی۔ روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام اور الکفیل انٹر نیشنل نیٹ ورک کے ارکان تمام مسلمانوں کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں سے ان کے بیٹے جناب قاسم علیہ السلام بہت ہی بلند مقام و مرتبہ کے مالک ہیں اور ان کی جلالت و عظمت کو جاننے کے لیے صرف وہی روایت کافی ہے جو شیخ کلینی نے اپنی کتاب کافی میں ذکر کی ہے۔ روایت میں مذکورہے کہ یزید بن سلیط اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مکہ کے راستہ میں ملاقات ہوئی تو گفتگو کے دوران امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ میں اپنے گھر سے نکلتے وقت اپنے بیٹے علیؑ(امام رضا علیہ السلام) کو اپنا وصی قرار دے کر آیا ہوں اور ظہاری طور پر میں نے اپنے باقی بیٹوں کو اس وصیت میں شریک قرار دیا ہے جب کہ باطن اور حقیقت میں میں نے صرف اسی کو ہی وصیت کی اور اسی کا ہی ارادہ کیا۔ اگر یہ معاملہ میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں امامت کے لیے اپنے بیٹے قاسم کو منتخب کرتا اس محبت اور شفقت کی وجہ سے جو مجھے اس سے ہے لیکن امامت کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے امام بنا دیتا ہے۔

شیخ کلینی نے روایت کی ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ایک بیٹے کو وفات سے پہلے حالت احتزار کافی مشکل کا سامنا تھا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے جناب قاسم علیہ السلام کو حکم دیا بیٹا اٹھو اور اپنے بھائی کے پاس بیٹھ کر سورہ صافات کی تلاوت کرو جب جناب قاسم علیہ السلام اس آیت پر پہنچے... أهم أشدّ خلقاً أم من خلقنا... تو ان کے بھائی کو اس مشکل سے نجات ملی اور انہوں کی روح پرواز کر گئی۔

ان دو روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو جناب قاسم علیہ السلام سے کس قدر محبت تھی۔

جناب قاسم علیہ السلام نے عباسی حکمرانوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے دادا کے وطن مدینہ کو خیر باد کہا اور ایک تجارتی قافلے کے ساتھ چھپ کر عراق آگئے اور حی باخمرا کے علاقے میں سکونت اختیار کر لی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے ذھد و تقوی، کرامات اور علمی وسعت و حکمت کو دیکھتے ہوئے ہر ایک ان کا گرویدہ ہو گیا علاقے کے سردار نے اپنی بیٹی کی شادی جناب قاسم علیہ السلام کر دی جس سے انہیں اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا۔

اسی طرح سے دن گزرتے رہے شادی کے چند سالوں بعد ہی جناب قاسم علیہ السلام شدید بیمار پڑ گئے’’جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ انہیں کسی دشمن اہل بیت علیھم السلام نے زہر دیا‘‘ انتقال سے پہلے جناب قاسم علیہ السلام نے علاقے کے سردار کو وصیت کی کہ میرے انتقال کے بعد مجھے غسل و کفن دے کر دفن کر دینا اور جب حض کا وقت آئے تو میری بیٹی اور میری بیوہ کو حج کے لیے ساتھ لے جانا اور مناسک حج سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کا سفر کرنا جب تم مدینہ کے دروازے پر پہنچو تو میری بیٹی کو وہیں اتار دینا اور جہاں جہاں یہ جائے تم دونوں اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہنا میری بیٹی ایک بلند دروازے والے گھر کے پاس جا کر رکے گی وہی ہمارا گھر ہے اور جب تم گھر میں جاو گے تو تمہیں وہاں صرف خواتین ہی دیکھائی دیں گی.....

22 جمادی الاول 192ھ میں جناب قاسم بن موسی کاظم علیہ السلام نے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا وصیت کے مطابق علاقے کے سردار نے حج کا وقت آتے ہی اپنی بیٹی اور نواسی کو ساتھ لیا اور سفر حج پہ روانہ ہو گیا حج مکمل کرنے کے بعد وہ مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے مدینہ کے دروازے پر آکر جناب قاسم کی بیٹی کو اتار دیا گیا اور وہ چلتے چلتے ایک بڑے دروازے کے پاس آکر رک گئی اس بچی نے جب دروازے پر دستک دی تو اندر سے خواتین نے اس کے لیے دروازہ کھول دیا بچی کے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی تمام خواتین بچی کے گرد جمع ہو گئیں اور اس سے اس کا نام اور اس کے والد کا نام پوچھنے لگیں اسی دوران جب جناب قاسم کی والدہ نے آکر اس بچی کو دیکھا تو اس کے شمائل سے انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ ان کی پوتی ہے اور انہوں نے گریہ کرتے ہوئے کہا یہی میرے بیٹے قاسم کی یتیمہ ہے.....

اس خبر غم سے گھر میں کہرام برپا ہو گیا..... اس بچی نے بتایا کہ میرا نانا اور میری والدہ بھی میرے ساتھ ہیں اور وہ دروازے کے باہر کھڑے ہیں...... بعض روایات میں ہے جناب قاسم علیہ السلام کی والدہ اس المناک خبر کے سنتے ہی بیمار ہو گئیں اور تین دن کے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: