تیرہ جمادی الثانی وہ المناک دن ہے جس میں علمدار وفاء کی والدہ ماجدہ حضرت ام البنین (ع) کی وفات ہوئی۔ ہر سال کی طرح امسال بھی بروز ہفتہ 13 جمادى الآخرة 1441ه بمطابق (8 فروری 2020) کو جناب ام البنین علیہا السلام کے یوم وفات کے احیاء کے لئے صبح سویرے ماتمی جلوسوں اور عزاداروں کی روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام میں برآمدگی شروع ہوئی جو سارا دن آجاری رہی اور عزادار حضرت عباس علیہ السلام کو ان کی والدہ کی وفات کا پرسہ پیش کرتے رہے۔
تمام ماتمی جلوس العباس روڈ کے راستہ باب القبلہ پہ پہنچے اور پھر وہاں سے روضہ مبارک میں داخل ہوئے اور تمام عزاداروں نے ضریح کے سامنے کھڑے ہو کر نوحہ خوانی اور ماتم کے ذریعے حضرت عباس علیہ السلام کو پرسہ پیش کیا اور جناب ام البنین علیہا السلام کے بیٹوں کو یاد کیا کہ جنہوں نے میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمرکاب ہو کر جامِ شھادت نوش کیا۔ اس کے بعد ماتمی جلوس مابین الحرمین سے ہوتے ہوئے روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام میں داخل ہوئے کہ جہاں ان کا عزاداری کے بعد اختتام ہوا۔ ان ماتمی جلوسوں میں روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام اور روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے خدام کا جلوس عزاء بھی شامل تھا۔
واضح رہے حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا کے حالات زندگی کے حوالے سے تاریخی کتابوں میں مذکور ہے:
آپ کی ذات وسیرت رفعت و بلندی کے اس معراج پر فائز ہے کہ اسے آب طلا سے لکھنا چاہیے پھر اسے لولؤ و مرجان سے مزین کرنا چاہیے تا کہ وہ خواتین اور مردوں کے لئے دستورحیات قرار پا سکے
آپ کی ولادت با سعادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ھجرت کے پانچویں سال دنیا میں تشریف لائی۔
نسب شریف: آپ فاطمہ بنت حزام تھیں آپ کے والد کی کنیت ابو المحل تھی،وہ خالد بن ربیعۃ بن الوحید بن کعب بن عامر بن کلاب کے بیٹے تھے،آپ کی والدہ ثمامۃ بنت سھل بن عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھیں ،آپ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے بنی کلاب سے تعلق رکھتی تھیں ،جو کہ عرب کے خالص قبائل بنی عامر بن صعصہ سے تھے جن کی شجاعت اور گھڑ سواری زمانے میں معروف تھیں ۔ نیک خاتون وشریف قبیلہ کی دختر اور فہمیدہ خاندان کی خاتون ام البنین تھیں ان کا تعلق عرب کے شریف ترین قبیلہ سے تھا،جس میں سب کہ سب کرامت اور شرافت کے لئے مشہور تھے،ان کے خاندان والے عرب کے سردار ،سید اور قائدین میں سے تھے ،وہ سب نامور ابطال تھے،انہی میں عامر بن طفیل جو کرم و سخاوت ،سب کی مدد کرنے،اورگھڑ سواری میں یکتا تھے،اسی طرح ان میں ابو براء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھے جو ام البنین (ع) کی والدہ کے جد تھے ان کے لئے کہا جاتا تھا (ملاعب الاسنۃ)۔جناب ام البنین میں آپ کے نانا اور داداکی تمام صفات ِجلیلہ پائی جاتی تھی ،اسی طرح اللہ نے انہیں بزرگی اور شرف بھی عطا کی تھیں ،جب ان کی شادی شیر خدا و رسول امام علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اس طرح وہ رسول کے گھر کے علاوہ سب خواتین میں بہترین خاتون قرار پائی،ان میں شرافت ،بزرگی و بلندی ہر جانب سے پائی جاتی تھیں ۔ ام البنین (ع) ان با فضیلت عورتوں میں سے تھی جو اہلبیت کی حقیقی معرفت رکھتی تھیں اور ان کی ولایت و محبت و مودت میں خالص اور ڈوبی ہوئی تھیں،اہلبیت(ع) کے نزدیک ان کا بہت بڑا مقام تھا،میدان کربلا میں آپ کی عظیم قربانیاں بے مثال تھی اسی طرح آپ کی امیر المومنین (ع) کی خدمت اور ان کے بچوں کی بی بی کونین فاطمہ الزہراء(س) کی وفات کے بعد دیکھ بھال دنیا کے سامنے عظیم مثال تھی ،امیر المومنین(ع) نے آپ سے شادی ہجرت کے چوبیسویں سال کی۔
حزام کا خواب: حزام بن خالد بن ربیعۃ بنی کلاب کے افراد کے ساتھ سفر میں تھا کہ ایک رات وہ سویا ہوا تھا کہ اس نے خواب میں دیکھا وہ ایک سرسبز جگہ پر بیٹھا ہے جبکہ وہ اپنے گروہ سے دور ہے ،اس کے ھاتھ میں ایک ذرہ ہے جس وہ پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہے اس کے حسن و بناوٹ سے اسے خیرہ کر دیا ہے ،اسی دوران دیکھتا ہے کہ ایک مرد گھڑ سوار اس کی جانب آرہا ہے جب وہ مرد اس تک پہنچتا ہے تو اسے سلام کرتا حزام اس کا جواب دیتا ہے پھر وہ مرد اسے کہتا ہے کہ یہ ذرہ کتنے میں بیچو گے۔اس نے حزام کے ہاتھ میں وہ ذرہ دیکھ لی ہوتی ہے۔حزام کہتا ہے کہ مجھے اس کی قیمت کا علم نہیں ہے لیکن تم بتاؤ تم کتنے میں خریدو گے؟وہ مرد جواب دیتا ہے کہ میں بھی تمہاری طرح اس کی قیمت سے ناآشنا ہو لیکن اگر تم اسے کسی حاکم کو ہدیہ کر دو تو میں تمہارے لئے ایسی چیز کی ضمانت دے سکتا ہو جو دینار و درھم سے کہیں گنا زیادہ قیمتی ہے،حزام نے کہا وہ کیا ہے ؟میں تمہیں مقام ومنزلت ،شرف اور ھمیشگی کی سرداری کی ضمانت دیتا ہوں،حزام نے کہا کیا تم مجھے اس کی ضمانت دیتےہوں ،اس نے کہا :ہاں،پھر حزام نے کہا تو تم اس معاملہ کے سلسلہ میں میرے واسطہ ہو؟اس نےکہا ہاں میں تمہارا واسطہ قبول کرتا ہوں مجھے یہ دو دے پھر حزام نے وہ ذرہ اسے دے دی۔ جب حزام نیند سے جاگا تو اس نے یہ خواب اپنے دوستوں کو سنایا اور ان سے تعبیر طلب کی تو ان میں سے ایک نے اس سے کہا:اگر تمہارا خواب سچا ہے تو عنقریب تمہیں ایک بیٹی عطا کی جائے گی جس کے رشتہ کے لئے ایک عظیم شخصیت آئے گی اور اس کے سبب سے تمہیں قرب ،شرف اور سرداری عطا کی جائے گی۔
ولادت مبارک: جب حزام سفر سے لوٹا تو اس کی بیوی ثمامہ بن سھیل حاملہ تھیں ،اتفاقا جیسے ہی حزام سفر سے لوٹا اس کے گھر اس نیک بچی کی ولادت ہوئی اسے خبر دی گئی تو وہ بہت خوشحال اور مسرورہو ااور خود سے کہا کہ جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ سچا تھا،اسے کہا گیا اس بچی کا کیا نام رکھیں تو اس نے کہا اس کا نام فاطمہ رکھو،آپ کی کنیت ام البنین رکھی گئی آپ کی نانی کی کنیت پر جو کہ لیلی بنت عمرو بن عامر بن ربیعۃ بن عامر بن صعصہ تھیں۔
اختیار و چناؤ: روایت کی جاتی ہے کہ امیر المومنین(ع) نے اپنے بھائی عقیل جو کہ ماہر انساب عرب تھے سے کہا کہ :میرے لیے ایسی خاتون تلاش کرو جس سے فحول عرب پیدا ہو ،میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہو تا کہ شجاع و گھڑ سوار بیٹا پیدا ہو،تو عقیل نے کہا: تو ام البنین الکلابیہ سے شادی کر لو کیونکہ عرب میں اس کے آباواجداد سے زیادہ کوئی شجاع نہیں ہے پس آپ نے ان سے شادی کر لی۔
ام البنین حضرت علی (ع) کے گھر میں: ام البنین(ع) بی بی زہرا کی وفادار اور ان کے مقام و منزلت کی معرفت رکھتی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ اولین و آخرین میں عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ،اور اس امت میں بلکہ تمام امتوں میں سے کسی کو بھی بی بی کونین کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کا ثبوت ام البنین(ع) کے اس قول سے ملتا ہے جب امیر المومنین (ع) سے شادی کی رات آپ نے امام حسن و حسین و زینب سے کہا :میں تمہارے گھرمیں اس لئے نہیں آئی کہ تمہاری ماں فاطمہ کی جگہ لوں،پھر خاموش ہوئیں اور کہا میں یہاں آپ کی خدمت کے لئے آئی ہوں کیا تم سب اس بات کو قبول کرتے ہو،اگر قبول نہیں تو میں اپنے گھر لوٹ جاؤں گی، پس امام حسن و حسین اور جناب زینب سے انہیں خوش آمدید کہا اور ان سے مخاطب ہوئے: آپ عزیز و کریمہ ہیں یہ گھر آپ کاہے، فاطمہ کلابیہ، شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ علی (ع) کے گھر میں قدم رکھنے کے وقت کہا: " جب تک نہ فاطمہ زہراء(س) کی بڑی بیٹی اجازت دیں، میں اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی۔" یہ خاندان رسالت کی انتہائی ادب و احترام کا مظاہرہ تھا۔ جس دن حضرت ام البنین نے علی علیہ السلام کے گھر میں پہلی بار قدم رکھا، امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بیمار تھے اور صاحب فراش تھے۔ ابو طالب کی بہو گھر میں داخل ہوتے ہی عالم ہستی کے ان دو عزیزوں اوراہل بہشت کےجوانوں کے سرداروں کےسراھنے پر پہنچیں۔اور ایک ہمدرد ماں کے مانند ان کی تیمارداری کرنے لگیں اور مسلسل یہ کہتی تھیں کہ:" میں فاطمہ زہراء (س) کی اولاد کی کنیز ہوں۔"
حضرت زہراء(س) کی اولاد سے ام البنین کی بے لوث محبت: ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے بچوں کے لئے ان کی ماں کی رحلت سے پیدا ہوا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں کمال جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ ماں کی مامتا سے محروم ہوچکے تھے۔ فاطمہ زہراء سلام اللہ کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پارہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔ جناب ام البنین، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔
فاطمہ سے ام البنین تک: فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیرالمؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں " فاطمہ" کے بجائے " ام البنین" خطاب کریں تاکہ" فاطمہ" (س)اور " کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔
اولاد: حضرت علی علیہ السلام سے شادی کے نتیجہ میں حضرت ام البنین نے چارشجاع اور بہادر بیٹوں کو جنم دیا، جن کے نام عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان تھے اور ان ہی بیٹوں کی وجہ سے انھیں ام البنین، یعنی بیٹوں کی ماں، کہا جاتا تھا۔ حضرت ام البنین کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہوئے اور صرف حضرت عباس کی نسل ان کے بیٹے عبیداللہ سے جاری رہی۔
آپ کی شخصیت کی بلندی: یہ نامور و نیک خاتون فضل وعفت،پاکدامنی ،تقوی اخلاق عالیہ کی صفات کے لحاظ سے ممتاز حیثیت کی مالک تھیں، ام البنین کی دوسری بلند صفات میں سے ان کی فصاحت و بلاغت کی صفت ہے جو ان کے خوبصورت اور لافانی اشعار میں ظاہر ہوئی ہے۔ ان کے لافانی اشعار، جن کی عربوں کے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے تجلیل کی ہے۔
مؤرخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اے بشیر ! امام حسین ( علیہ السلام) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو؟ بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنین نے فرمایا:" مجھے حسین ( علیہ السلام) کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: "اے بشیر! مجھے ابی عبدا للہ الحسین کی خبر بتادو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان ہو۔" جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا: " اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔
حضرت ام البنین (ع) کی رحلت: حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔ تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے،اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سنہ 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سنہ 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔
تمام ماتمی جلوس العباس روڈ کے راستہ باب القبلہ پہ پہنچے اور پھر وہاں سے روضہ مبارک میں داخل ہوئے اور تمام عزاداروں نے ضریح کے سامنے کھڑے ہو کر نوحہ خوانی اور ماتم کے ذریعے حضرت عباس علیہ السلام کو پرسہ پیش کیا اور جناب ام البنین علیہا السلام کے بیٹوں کو یاد کیا کہ جنہوں نے میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمرکاب ہو کر جامِ شھادت نوش کیا۔ اس کے بعد ماتمی جلوس مابین الحرمین سے ہوتے ہوئے روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام میں داخل ہوئے کہ جہاں ان کا عزاداری کے بعد اختتام ہوا۔ ان ماتمی جلوسوں میں روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام اور روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے خدام کا جلوس عزاء بھی شامل تھا۔
واضح رہے حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا کے حالات زندگی کے حوالے سے تاریخی کتابوں میں مذکور ہے:
آپ کی ذات وسیرت رفعت و بلندی کے اس معراج پر فائز ہے کہ اسے آب طلا سے لکھنا چاہیے پھر اسے لولؤ و مرجان سے مزین کرنا چاہیے تا کہ وہ خواتین اور مردوں کے لئے دستورحیات قرار پا سکے
آپ کی ولادت با سعادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ ھجرت کے پانچویں سال دنیا میں تشریف لائی۔
نسب شریف: آپ فاطمہ بنت حزام تھیں آپ کے والد کی کنیت ابو المحل تھی،وہ خالد بن ربیعۃ بن الوحید بن کعب بن عامر بن کلاب کے بیٹے تھے،آپ کی والدہ ثمامۃ بنت سھل بن عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھیں ،آپ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے بنی کلاب سے تعلق رکھتی تھیں ،جو کہ عرب کے خالص قبائل بنی عامر بن صعصہ سے تھے جن کی شجاعت اور گھڑ سواری زمانے میں معروف تھیں ۔ نیک خاتون وشریف قبیلہ کی دختر اور فہمیدہ خاندان کی خاتون ام البنین تھیں ان کا تعلق عرب کے شریف ترین قبیلہ سے تھا،جس میں سب کہ سب کرامت اور شرافت کے لئے مشہور تھے،ان کے خاندان والے عرب کے سردار ،سید اور قائدین میں سے تھے ،وہ سب نامور ابطال تھے،انہی میں عامر بن طفیل جو کرم و سخاوت ،سب کی مدد کرنے،اورگھڑ سواری میں یکتا تھے،اسی طرح ان میں ابو براء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب تھے جو ام البنین (ع) کی والدہ کے جد تھے ان کے لئے کہا جاتا تھا (ملاعب الاسنۃ)۔جناب ام البنین میں آپ کے نانا اور داداکی تمام صفات ِجلیلہ پائی جاتی تھی ،اسی طرح اللہ نے انہیں بزرگی اور شرف بھی عطا کی تھیں ،جب ان کی شادی شیر خدا و رسول امام علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اس طرح وہ رسول کے گھر کے علاوہ سب خواتین میں بہترین خاتون قرار پائی،ان میں شرافت ،بزرگی و بلندی ہر جانب سے پائی جاتی تھیں ۔ ام البنین (ع) ان با فضیلت عورتوں میں سے تھی جو اہلبیت کی حقیقی معرفت رکھتی تھیں اور ان کی ولایت و محبت و مودت میں خالص اور ڈوبی ہوئی تھیں،اہلبیت(ع) کے نزدیک ان کا بہت بڑا مقام تھا،میدان کربلا میں آپ کی عظیم قربانیاں بے مثال تھی اسی طرح آپ کی امیر المومنین (ع) کی خدمت اور ان کے بچوں کی بی بی کونین فاطمہ الزہراء(س) کی وفات کے بعد دیکھ بھال دنیا کے سامنے عظیم مثال تھی ،امیر المومنین(ع) نے آپ سے شادی ہجرت کے چوبیسویں سال کی۔
حزام کا خواب: حزام بن خالد بن ربیعۃ بنی کلاب کے افراد کے ساتھ سفر میں تھا کہ ایک رات وہ سویا ہوا تھا کہ اس نے خواب میں دیکھا وہ ایک سرسبز جگہ پر بیٹھا ہے جبکہ وہ اپنے گروہ سے دور ہے ،اس کے ھاتھ میں ایک ذرہ ہے جس وہ پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہے اس کے حسن و بناوٹ سے اسے خیرہ کر دیا ہے ،اسی دوران دیکھتا ہے کہ ایک مرد گھڑ سوار اس کی جانب آرہا ہے جب وہ مرد اس تک پہنچتا ہے تو اسے سلام کرتا حزام اس کا جواب دیتا ہے پھر وہ مرد اسے کہتا ہے کہ یہ ذرہ کتنے میں بیچو گے۔اس نے حزام کے ہاتھ میں وہ ذرہ دیکھ لی ہوتی ہے۔حزام کہتا ہے کہ مجھے اس کی قیمت کا علم نہیں ہے لیکن تم بتاؤ تم کتنے میں خریدو گے؟وہ مرد جواب دیتا ہے کہ میں بھی تمہاری طرح اس کی قیمت سے ناآشنا ہو لیکن اگر تم اسے کسی حاکم کو ہدیہ کر دو تو میں تمہارے لئے ایسی چیز کی ضمانت دے سکتا ہو جو دینار و درھم سے کہیں گنا زیادہ قیمتی ہے،حزام نے کہا وہ کیا ہے ؟میں تمہیں مقام ومنزلت ،شرف اور ھمیشگی کی سرداری کی ضمانت دیتا ہوں،حزام نے کہا کیا تم مجھے اس کی ضمانت دیتےہوں ،اس نے کہا :ہاں،پھر حزام نے کہا تو تم اس معاملہ کے سلسلہ میں میرے واسطہ ہو؟اس نےکہا ہاں میں تمہارا واسطہ قبول کرتا ہوں مجھے یہ دو دے پھر حزام نے وہ ذرہ اسے دے دی۔ جب حزام نیند سے جاگا تو اس نے یہ خواب اپنے دوستوں کو سنایا اور ان سے تعبیر طلب کی تو ان میں سے ایک نے اس سے کہا:اگر تمہارا خواب سچا ہے تو عنقریب تمہیں ایک بیٹی عطا کی جائے گی جس کے رشتہ کے لئے ایک عظیم شخصیت آئے گی اور اس کے سبب سے تمہیں قرب ،شرف اور سرداری عطا کی جائے گی۔
ولادت مبارک: جب حزام سفر سے لوٹا تو اس کی بیوی ثمامہ بن سھیل حاملہ تھیں ،اتفاقا جیسے ہی حزام سفر سے لوٹا اس کے گھر اس نیک بچی کی ولادت ہوئی اسے خبر دی گئی تو وہ بہت خوشحال اور مسرورہو ااور خود سے کہا کہ جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ سچا تھا،اسے کہا گیا اس بچی کا کیا نام رکھیں تو اس نے کہا اس کا نام فاطمہ رکھو،آپ کی کنیت ام البنین رکھی گئی آپ کی نانی کی کنیت پر جو کہ لیلی بنت عمرو بن عامر بن ربیعۃ بن عامر بن صعصہ تھیں۔
اختیار و چناؤ: روایت کی جاتی ہے کہ امیر المومنین(ع) نے اپنے بھائی عقیل جو کہ ماہر انساب عرب تھے سے کہا کہ :میرے لیے ایسی خاتون تلاش کرو جس سے فحول عرب پیدا ہو ،میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہو تا کہ شجاع و گھڑ سوار بیٹا پیدا ہو،تو عقیل نے کہا: تو ام البنین الکلابیہ سے شادی کر لو کیونکہ عرب میں اس کے آباواجداد سے زیادہ کوئی شجاع نہیں ہے پس آپ نے ان سے شادی کر لی۔
ام البنین حضرت علی (ع) کے گھر میں: ام البنین(ع) بی بی زہرا کی وفادار اور ان کے مقام و منزلت کی معرفت رکھتی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ اولین و آخرین میں عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ،اور اس امت میں بلکہ تمام امتوں میں سے کسی کو بھی بی بی کونین کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کا ثبوت ام البنین(ع) کے اس قول سے ملتا ہے جب امیر المومنین (ع) سے شادی کی رات آپ نے امام حسن و حسین و زینب سے کہا :میں تمہارے گھرمیں اس لئے نہیں آئی کہ تمہاری ماں فاطمہ کی جگہ لوں،پھر خاموش ہوئیں اور کہا میں یہاں آپ کی خدمت کے لئے آئی ہوں کیا تم سب اس بات کو قبول کرتے ہو،اگر قبول نہیں تو میں اپنے گھر لوٹ جاؤں گی، پس امام حسن و حسین اور جناب زینب سے انہیں خوش آمدید کہا اور ان سے مخاطب ہوئے: آپ عزیز و کریمہ ہیں یہ گھر آپ کاہے، فاطمہ کلابیہ، شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ علی (ع) کے گھر میں قدم رکھنے کے وقت کہا: " جب تک نہ فاطمہ زہراء(س) کی بڑی بیٹی اجازت دیں، میں اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی۔" یہ خاندان رسالت کی انتہائی ادب و احترام کا مظاہرہ تھا۔ جس دن حضرت ام البنین نے علی علیہ السلام کے گھر میں پہلی بار قدم رکھا، امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بیمار تھے اور صاحب فراش تھے۔ ابو طالب کی بہو گھر میں داخل ہوتے ہی عالم ہستی کے ان دو عزیزوں اوراہل بہشت کےجوانوں کے سرداروں کےسراھنے پر پہنچیں۔اور ایک ہمدرد ماں کے مانند ان کی تیمارداری کرنے لگیں اور مسلسل یہ کہتی تھیں کہ:" میں فاطمہ زہراء (س) کی اولاد کی کنیز ہوں۔"
حضرت زہراء(س) کی اولاد سے ام البنین کی بے لوث محبت: ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے بچوں کے لئے ان کی ماں کی رحلت سے پیدا ہوا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں کمال جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ ماں کی مامتا سے محروم ہوچکے تھے۔ فاطمہ زہراء سلام اللہ کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پارہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔ جناب ام البنین، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔
فاطمہ سے ام البنین تک: فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیرالمؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں " فاطمہ" کے بجائے " ام البنین" خطاب کریں تاکہ" فاطمہ" (س)اور " کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔
اولاد: حضرت علی علیہ السلام سے شادی کے نتیجہ میں حضرت ام البنین نے چارشجاع اور بہادر بیٹوں کو جنم دیا، جن کے نام عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان تھے اور ان ہی بیٹوں کی وجہ سے انھیں ام البنین، یعنی بیٹوں کی ماں، کہا جاتا تھا۔ حضرت ام البنین کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہوئے اور صرف حضرت عباس کی نسل ان کے بیٹے عبیداللہ سے جاری رہی۔
آپ کی شخصیت کی بلندی: یہ نامور و نیک خاتون فضل وعفت،پاکدامنی ،تقوی اخلاق عالیہ کی صفات کے لحاظ سے ممتاز حیثیت کی مالک تھیں، ام البنین کی دوسری بلند صفات میں سے ان کی فصاحت و بلاغت کی صفت ہے جو ان کے خوبصورت اور لافانی اشعار میں ظاہر ہوئی ہے۔ ان کے لافانی اشعار، جن کی عربوں کے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے تجلیل کی ہے۔
مؤرخین نے لکھا ہے:" واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں ام البنین سے ملاقات کی تاکہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اے بشیر ! امام حسین ( علیہ السلام) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو؟ بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کئے گئے۔ ام البنین نے فرمایا:" مجھے حسین ( علیہ السلام) کی خبر بتادو۔" بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا: "اے بشیر! مجھے ابی عبدا للہ الحسین کی خبر بتادو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبداللہ الحسین (ع) پر قربان ہو۔" جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا: " اے بشیر! تونے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔" اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔
حضرت ام البنین (ع) کی رحلت: حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔ تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے،اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سنہ 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سنہ 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔