اس خطبہ جمعہ کے ذریعے اعلی دینی قیادت کا پیغام

اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی (دام عزہ) نے (21 جمادى الثانی 1441هـ) بمطابق (14فروری 2020ء) کو روضہ مبارک امام حسین(ع) میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کے دوران ذاتی مفادات کو دوسروں کے مفادات پر ترجیح دینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا:

میرے بھائیو اور بہنو! دوسرے خطبہ میں ہمارا موضوع: ’’اقدار و اخلاق کا نظام اور اس کی معاشرتی ضرورت‘‘ ہے ، یہاں ہمیں جمعہ کے خطبات میں ان پہلوؤں کی اہمیت کو واضح کرنا ضروری ہے۔

فرد، معاشرے بلکہ تمام انسانی معاشروں کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں اقدار اور اخلاقیات کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے قطع نظر کہ ان کا تعلق کسی آسمانی مذہب سے ہے یا نہیں۔ تو معاشرے میں اقدار اور اخلاقیات کے نظام کی اہمیت اور ضرورت کیوں ہے؟
بھائیو اور بہنو، معاشرتی تعلقات کی سالمیت اور اس معاشرے کی مضبوطی کے لیے انسانی اقدار اور اخلاق کو ایک لازمی ستون سمجھا جاتا ہے ، جہاں سے باہمی تعاون ، باہمی انحصار اور معاشرتی یکجہتی سامنے آتی ہے ، جس سے فرد اور معاشرے کو اپنی بنیادی ضرورتوں کا حصول ہوتا ہے۔ معاشی لین دین و معیشت کو ناانصافی اور استحصال سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی ایک بنیادی ستون انسانی اقدار ہیں ، اور یہ فرد اور معاشرے کے نفسیاتی استحکام کا بھی ایک بنیادی ستون ہیں ، اور یوں عام طور پر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا ایک بنیادی ستون ہیں ، اور کسی بھی معاشرے میں اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرنے یا ان میں بگاڑ پیدا کرنے سے وہ معاشرہ اپنی طاقت ، عزت ، فخر ، وقار اور ترقی سے محروم ہو جاتا ہے۔

ایک ادیب نے اسی حوالے سے کیا خوب کہا ہے: (وإنّما الأُمَمُ الأخلاقُ ما بَقِيتْ ** فإنْ هُمُ ذهبَتْ أخلاقُهُم ذهبوا) یعنی یہ اخلاق ہی ہے جس سے اقوام باقی رہتی ہیں ، اگر ان کا اخلاق چلا جائے تو وہ بھی ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں۔

بعض اقوام ترقی کی قابل ذکر اور مرئی سطح پر پہنچ چکی ہیں ، حالانکہ ان میں سے کچھ کا آسمانی مذہب نہیں ہے ، اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا راز ہے؟ اگر ہم ان معاشروں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ معاشرے نظام اقدار اور اخلاقیات کا ایک ثقافت کی حیثیت سے خیال رکھتے ہیں اور اسے معاشرے کے ارکان اور ریاستی اداروں میں پھیلاتے ہیں ، اور اس ثقافت کو روزمرہ کے معمولات میں بدل دیتے ہیں۔

ہم ان ترقی یافتہ اقوام میں بنیادی معاشرتی اقدار ، اخلاقیات اور اصولوں کے ایک مجموعہ کا مشاہدہ کرتے ہیں جو ان معاشروں میں واضح اور مرئی ہیں ، جس میں معاشرتی انصاف پھیلانا ، دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا ، قانون کا احترام کرنا ، اور کچھ اہم اصول جیسے ایمانداری ، امانتداری ، اور عہد ناموں کو برقرار رکھنا ، زندگی کے ایک مقدس اصول کی حیثیت سے اپنے کام میں کمال اور مہارت حاصل کرنا۔ ان بہت سارے معاشروں اور لوگوں کے ترقی یافتہ اور خوشحال ہو جانے کیا راز ہے؟ تو اس کا راز بنیادی اقدار اور اخلاقیات کے نظام میں ان کی دلچسپی اور دیکھ بھال ہے اور یہ ہر معاشرے کے لئے ضروری ہے۔

اب ہم اپنے عراقی معاشرے کی طرف آتے ہیں ، ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بلاشبہ ہمارے معاشرے میں بہت ساری انسانی اقدار اور اخلاقیات موجود ہیں ، جیسے سخاوت ، قربانی ، صبر ، استقامت ، حمیت غیرت اور وطن و مذہب کے لئے جوش و جذبہ، لیکن ساتھ ہی بدقسمتی سے معاشرے میں کچھ اخلاقی خامیاں اور غلط طرز عمل بھی پائے جاتے ہیں ، اور بغیر کسی استثنا کے ہم سب کو انھیں کم کرنے اور ان سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح یہاں بہت ساری اچھی اقدار اور اخلاقیات موجود ہیں ، اسی طرح کچھ اخلاقی خرابیاں بھی ہیں جن پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ لہذا میں ان میں سے کچھ اخلاقی خرابیوں کا ذکر کروں گا تاکہ ان کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکے اور جب بھی ممکن ہو ان کو دور کیا جا سکے:

1: خود غرضی:- اس سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص صرف اپنے ذاتی اور انفرادی مفادات کے حصول کی پرواہ کرتا ہے اور دوسروں کے مفادات کا خیال نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ ایک شخص عوامی مفادات پر اپنے انفرادی اور ذاتی مفادات مقدم کرتا ہے۔ یہ افسوسناک ہے ، کیوں کہ ہم میں سے بہت سارے وہ افراد اس صفت سے متصف ہیں کہ جنہوں نے عوامی ذمہ داری کے عہدے سنبھال لئے ہیں ، جن سے ہمیں امید تھی کہ وہ ذاتی اور انفرادی مفادات کے بجائے عوامی مفادات کے لئے کام کریں گے ، اور یہاں تک کہ بطور شہری ہم خود بھی اس غلط خصوصیت کے حامل ہیں ، ہم میں سے بہت سارے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں جو یہاں عوامی مفادات کی خلاف ورزی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر ایک شخص تعصب ، اثر و رسوخ کو استعمال کیے بغیر اور عوامی مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر اپنے انفرادی مفادات کی تلاش کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جب اس سے عوامی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کی پامالی ہوتی ہے تو پھر وہاں مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور ہم نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ جنہوں نے اقتدار اور ذمہ داری اور اقتدار کے عہدے پر فائز ہوکر عوامی مفاد کے لئے کام کرنا چاہئے تھا وہ اس صفت سے متصف ہیں۔

2: جھوٹ ، منافقت اور بغیر ثبوت کے دوسروں پر الزام لگانا ، ان کی ہتک حرمت کر کے اور ان کی بدنامی کر کے ان کی معاشرتی اور سیاسی ناکامی کا سبب بننا ، اور یہ اس حالیہ عرصے میں پھیلنے والی قابل مذمت خصوصیات میں سے ایک ہے۔

3: قومی ، مذہبی ، دینی اور قبائلی تعصب جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے حق اور انصاف پسندی سے دوری اختیار کر لی ہے، اور حقیقت میں اس سے ملک کے لوگوں کے مابین نفرت پیدا ہوتی ہے ، اور یہ ان کو تعاون و یکجہتی کے ساتھ کام کرنے روک دیتی ہے۔

4: اس دور میں دوسروں پر زبانی و عملی حملے، بدتمیزی اور حدود سے تجاوز بھی بری طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، یہاں تک کہ وطن اور شہریوں کی خدمت کرنے والے معزز لوگوں کو بھی اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، جیسے کہ یونیورسٹیوں کے کچھ پروفیسرز ، اساتذہ یا ٹریفک پولیس کو اس بدترین عمل کا ہدف بنایا گیا اور ان پر حملے کیے گئے۔

5: معاشرے میں نظر آنے والی پانچویں بدترین صفت شدت پسندی اور سخت گیری ہے شدت پسندی کا تعلق صرف جنگ سے نہیں بلکہ اس کا دائرہ ہر جگہ ہے بہت سے خاندانی اور معاشرتی مسائل کو فہم و تفہیم سے حل کرنے کی بجائے یا قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے سختی اور تشدد سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو قابل مذمت اور تباہ کن ہے۔

6: مالی حوالے سے رشوت اور دوسرے کے مال پر تجاوز بھی معاشرے میں منتشر ہے دوسروں کا ناحق مالی و معاشی استحصال، دوسروں کے مال پر قبضہ اور مالی خردبرد معاشرے میں جابجا پھیل چکی ہے۔

معاشرے میں ہر طرف نظر آنے والے مسائل میں خاندانی ٹوٹ پھوٹ، اخلاقی زوال، منشیات کا استعمال اور اس کی اسمگلنگ ، خودکشیوں کی ایک بڑی تعداد اور کچھ لوگوں کا عراقی شناخت کی بجائے دوسرے خطوں کے حلیے اختیار کرنے کا رجحان وغیرہ

ہمیں اس معاملے پر غور کرنا چاہئے ، کیونکہ ہمیں عراقی شناخت کے جوہر اور عنصر کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس لئے اسکولوں اور ریاستی اداروں میں اخلاقیات ، اقدار اور اصولوں پر عمل ہونا چاہئے ، اساتذہ کو اخلاقیات کے موضوع پر لیکچرز دینے چاہئے ، کیونکہ طلباء کو صرف تعلیمی مضامین کی تعلیم دینا ناکافی ہے طلباء کو اخلاقیات کی اہمیت اور ان کا نفاذ کرنے کا طریقہ سکھانے کی ضرورت ہے۔

میڈیا ہاؤسز اور ذرائع ابلاغ کو بھی اسے اجاگر کرنا چاہیے کہ جس نے صرف سیاست پر توجہ دی ہوئی ہے اور اخلاقی اصولوں اور اقدار کو نظرانداز کر رکھا ہے میڈیا کی طرف سے لوگوں میں اخلاقیات کی حوصلہ افزائی پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

مزید برآں اخلاقیات ، اقدار اور اصولوں کو نافذ کرنے میں حکومت کا کردار دکھائی دینا چاہیے ، لوگوں کو بھی دوسرں کے غلط طریقوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔

اس مسئلے کے علاج کے لیے ہمیں ہر فورم پر شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے سکولز اور دیگر تعلیمی اداروں کو اخلاقیات اور اقدار پر توجہ دیتے ہوئے انھیں اولین ترجیح قرار دینا چاہیے، ادباء کو اس موضوع پر لکھنا چاہیے ، گھر کے سرپرست کو بھی اس حوالے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اس سلسلہ میں قرآن و احادیث اور انبیاء و آئمہ کی سیرت کو اپنا نمونہ عمل قرار دینا ہو گا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: