یہ وباء خدائی آزمائش ہے یا کچھ اور؟ علامہ صافی کا تبصرہ

روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی (داعزہ) نے ایک پروگرام کے دوران اس سوال کا جواب دیا کہ جو آج عراق اور عالم اسلام کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ: آیا ہم جس مصیبت میں مبتلا ہیں کیا یہ اللہ کی طرف سے انسانوں کے لئے آزمائش ہے یا پھر یہ کچھ اور ہے؟ علامہ صافی نے اس سوال کا جواب اس عنوان کے تحت دیا ہے کہ: ( اللہ تعالی کا قرب ہر مصیبت کو ختم کر دیتا ہے)

اس کو ویڈیو کی صورت میں دیکھنے کے لیے یہ لنک استعمال کریں:

https://alkafeel.net/videos/watch?key=15f38fc3

بسم الله الرّحمن الرّحيم، الحمدُ لله ربّ العالمين والصلاةُ والسلام على خير خلقه أبي القاسم محمّدٍ وعلى آله الطيّبين الطاهرين

میرے بھائیو اور بہنو السلام علیکم

آج دس رجب ہے کہ جو امام محمد تقی علیہ السّلام کے جشن میلاد کا دن ہے لہذا میں سب سے پہلے آپ کو اس مناسبت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ وہ ہماری توفیقات کو دوام بخشے اور ہمارے امور کو آسان فرمائے۔

کسی نے نے مجھ سے سے دنیا کی موجودہ صورتحال اور ملک کے حالات کے نتائج کے بارے میں سوال کیا ہے کہ: آیا یہ انسانیت کے لیے خدا کی طرف سے کوئی آزمائش ہے یا پھر کوئی اور چیز ہے؟

تو میں نے مختصر طور پر اس پر دینی حوالے سے بات کرنا پسند کیا یا یعنی پہلوؤں سے قطع نظر میں نے اس قضیہ کو دینی مفہوم کے لحاظ سے بیان کیا۔ میں نے سب سے پہلے بتایا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے اللہ تعالی اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے جیسا کہ ایک دعا میں وارد ہوا ہے (يا حبيبَ مَنْ تحبَّبَ إليه)، انسان اللہ کا محتاج ہوتا ہے اور اسے ہر لمحہ ہر وقت اللہ تعالی کی ضرورت ہوتی ہے، بعض اوقات انسان اللہ سے غافل ہو جاتا ہے اور اپنے اوپر حد سے زیادہ اعتماد کی وجہ سے وہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے ، بعض دفعہ اللہ تعالی سے انسان کی دوری اس کے میڈیکل یا دوسرے شعبوں میں بہت زیادہ انکشافات اور ایجادات کے سبب بھی ہوتی ہے۔

اللہ تعالی انسان کے لئے صرف بھلائی ہی چاہتا ہے ہے لہذا جب انسان ان اس راستے سے سے باہر نکلتا ہے کہ جو اللہ تعالی نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے تو اللہ اسے بار بار متوجہ کرتا ہے کہ شاید یہ انسان واپس اپنے رب کی طرف لوٹ آئے، میرا خیال ہے ہے کہ اس وقت دنیا والے بہت سے تصرفات کے سبب اللہ تعالی کو بھول چکے ہیں اور اپنے کاموں میں اللہ تعالی کو فراموش کر چکے ہیں یہی لوگ اپنے اوپر پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور اس پراعتمادی میں وہ اللہ تعالی سے حتمی ملاقات کو بھول جاتے ہیں اور بہت سی نافرمانیاں یا بہت سی برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں پس اللہ تعالی اپنے بندوں کو متنبہ کرتا ہے سورہ یونس کی بعض آیات مجیدہ اسی طرف اشارہ کرتی ہیں ہیں اور اسی طرح سے امام مہدی علیہ السلام سے منسوب دعا میں بھی یہ آیت مذکور ہے:

(إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالأَنْعَامُ حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَاراً فَجَعَلْنَاهَا حَصِيْدَاً كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ).

ترجمہ: دنیا وی زندگی کی مثال یقینا اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لےے ہم اپنی نشانیاںاس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔

یہ وہ قواعد و ضوابط ہیں کہ جو جاری رہتے ہیں اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے انسان جب اللہ تعالی سے دور ہوتا ہے تو اس وقت تنبیہات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے بارہا متوجہ کیا جاتا ہے لیکن جب اللہ کی طرف انسان نہیں لوٹتا تو پھر مصیبت نازل ہوتی ہے اور اگر ہم پر موت نازل ہوجائے جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ صحت مند انسان بھی اپنی آنے والی گھڑی کے بارے میں نہیں جانتا کہ وہ آئندہ لمحہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں لہذا ضروری ہے کہ انسان خود کو موت کے لیے تیار رکھے اور اگر کوئی مصیبت نازل بھی ہوتی ہے تو یاد رکھیں جو مصیبتیں اللہ تعالی کی طرف سے آئيں وہ رحمت ہوتی ہیں، ہمیں توجہ دلانے کا ذریعہ ہوتی ہیں تاکہ ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔

اچانک موت اور منتظَر موت میں خاصہ فرق ہے انسان منتظَر موت میں متوجہ ہوتا ہے اور انسان موت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا رہتا ہے اور اب ہر روز خبروں میں ہمیں اس طرف متوجہ کیا جا رہا ہے ہر روز بتایا جاتا ہے کہ اتنے لوگ اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں بلکہ بعض کا کہنا تو یہ ہے کہ جو اعدادوشمار ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں وہ اصل اعدادوشمار سے بہت کم ہے ، اللہ تعالی ہمیں اور تمام انسانوں کو ہر مصیبت سے محفوظ رکھے ، لیکن میں یہاں کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کے لئے ضروری ہے ہے کہ وہ آزمائش اور مصیبت کے لیے تیار رہے اور اس سلسلہ میں خدا کی طرف رجوع کرے خدا کے حضور توبہ کی درخواست کرے خدا سے مغفرت طلب کرے، میرے مومنین بھائیو ہر جگہ توبہ کی محافل و مجالس منعقد کرنی چاہیے اپنے گھروں میں مجالس استغفار اور ایسی محافل کا انتظام کرنا چاہیے جن میں ہم اندھیروں سے نکل کر خدا کی طرف متوجہ ہو جائیں، اے اللہ اس امت سے اس مصیبت کو ٹال دے۔

اسی موضوع پر پر سورہ یونس میں مذکور ہے:

(فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الخِزْيِ فِي الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِيْنٍ)

ترجمہ: کیا کو ئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت ) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے) بہرہ مند رکھا۔

انسان پر جب مصیبت نازل ہوتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ اس طرف متوجہ ہوجائے کہ وہ دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے میں نے کہا تھا کہ انسان ہر روز موت کے بار بار قریب آتا ہے اسے چاہیے کہ متنبہ ہو

انسان کبھی طبیعی اسباب سے فوت ہوتا ہے کبھی انسان مکمل طور پر صحت مند ہوتا ہے اور اسی حالت میں اچانک اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے جبکہ انسان بیماری کے باوجود سالوں تک زندہ رہتا ہے، اللہ تعالی نے موت کو ہم سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے تاکہ ہم ہمیشہ موت کے لیے تیار رہیں۔

آج اس دنیا کو خاص وباء نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لہذا ہمارے لئے ضروری ہے اسے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت سمجھیں آج ہمیں سوائے اللہ کی رحمت کے کوئی چیز فائدہ نہیں پہنچا سکتی جو قدرتی اسباب کہ جنہیں انسان استعمال کر رہا ہے ناکام ہو رہے ہیں لیکن ایک دیندار معاشرہ ہونے کے حوالے سے ہمارا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالی ہر مصیبت کو ختم کرسکتا ہے اے اللہ اس مصیبت کو اس مشکل کو اس امت سے ختم کر نجانے کتنی ہی مشکلات اور کتنی ہی مصیبتیں تھی کہ جو انسانوں پر افرادی اور اجتماعی طور پر نازل ہوئیں اور اللہ تعالی نے ان مصیبتوں کو اپنی رحمت سے ختم کیا، یہ مرض ہمیں اللہ کی فرمانبرداری کی دعوت دیتا ہے میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے ہے لہذا جب اللہ ہم سے محبت کرتا ہے تو ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں

قرآن میں نبی کریم (ص) فرماتے ہیں (قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ). اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے سے محبت کرے گا

اللہ تعالی بہت جلد راضی ہو جانے والا ہے اللہ سریع الرضا ہے جیسا کہ دعا کمیل ہیں اللہ تعالی ہم سے جلد راضی ہو جاتا ہے لیکن ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اللہ کی بارگاہ کی جانب قدم بڑھائیں یہ مصیبتیں اور امراض خاص طور پر وہ امراض مصیبتیں کہ جو عمومی طور پر سب لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں ہیں ان کا خاتمہ صرف اللہ تعالی،نبی کریم(ص) اور آئمہ اطہار(ع) کی طرف متوجہ ہوجانے میں ہے۔

آئیے اللہ سے دعا ہے کہ وہ وہ اس آزمائش اور مصیبت کو اس امت سے دور کرے ، اے اللہ ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اس بلا کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں ہر مقام پر پر خیرات سے نواز اے اللہ ہمیں ان میں سے قرار تھے جو تیری قضا و قدر پر یقین رکھتے ہیں تیری اقدار کو مانتے ہیں اے اللہ ہم تیرے ہی بندے ہیں اور تجھ سے ہی سوال کرتے ہیں کہ تو ہم پر رحم فرما یہ رجب کا مہینہ ہے کہ جس میں خیرات نازل ہوتی ہے اے اللہ اپنی رحمت کے صدقے صدقے اے اللہ تو بہت ہی قلیل کو قبول کرلیتا ہے اور بہت زیادہ کو معاف کر دیتا ہے ہم سے اس قلیل کو قبول فرما اور ہمارے کثیر گناہوں کو معاف فرما بے شک تو ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اے اللہ اپنی رحمت کے صدقے ہم پر رحم فرما اس عذاب کو دور رکھ اس عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ اے اللہ ہم محمد وآل محمد پر ایمان رکھتے ہیں اور تجھ سے انہی کے واسطے سوال کرتے ہیں اے اللہ محمد وآل محمد کے صدقے ہمیں مکمل عافیت و سلامتی عطا فرما۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمين، وصلّى الله على محمّدٍ وآله الطيّبين الطاهرين.
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: