کورونا سے متعلق اعلی دینی قیادت کے نمائندے علامہ احمد صافی کا خصوصی پیغام

اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ الورف) کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس(علیہ السلام) کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی (دام عزہ) نے بروز جمعہ (٢٤ رجب ١٤٤١هـ) بمطابق (٢٠ مارچ ٢٠٢٠ء) کو پوری دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے سبب ملک کو درپیش چیلیجز کے بارے میں ایک ویڈیو پیغام دیا ہے جسے آپ درج ذیل لنک کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں:

https://alkafeel.net/videos/watch?key=afc78790

اس پیغام میں علامہ احمد صافی (دام عزہ) نے فرمایا ہے:

بسم الله الرّحمن الرّحيم

الحمدُ لله ربّ العالمين، وصلّى الله على سيّدنا ونبيّنا أبي القاسم محمّدٍ وعلى آله الطيّبين الطاهرين.

کل ہفتہ کے دن حضرت امام موسی کاظم بن جعفر (علیہ السلام) کا یومِ شہادت ہے میں آپ سب کو اس المناک سانحہ پہ تعزیت پیش کرتا ہوں، ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ وہ محمد و آل محمد(ص) کے صدقے ہم سب کی مشکلات دور فرمائے اور ہمیشہ ہمیں امان وسلامتی کے احساس سے بہرہ مند کرے۔

بھائیو اور بہنو، آج ہم اس جمعہ کے دن اللہ تبارک و تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ محمد و آل محمد(ص) کے صدقے ہمیشہ ہمیں توفیقات سے نوازے۔

میں آپ سے تین محوروں یا زاویوں سے بات کرنا چاہتا ہوں، پہلا مذہبی محور، دوسرا طبی محور، اور تیسرا معاشرتی محور۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں، دنیا کے اکثر ممالک کورونا وائرس کے وبائی مرض کا سامنا کر رہے ہیں خدا تعالی ہمیں خیر و عافیت سے رکھے اور اس بلاء و آزمائش سے ہمیں نجات دے، دو ہفتہ پہلے میں نے اس کے بارے میں دینی حوالے سے بات چیت کی تھی میں مختصر طور پر پہلے اس وباء کے بارے میں دینی نقطہ نظر سے بات کر کے دوسرے اور تیسرے محور کی طرف آتا ہوں۔

آپ جانتے ہیں کہ ہمارے عقیدہ کے مطابق جس چیز کا بھی ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے لکھی ہے (قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا)۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ایک مومن انسان ہمیشہ مطمئن رہتا ہے اور یہی وہ تعلق ہے جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہوتا ہے، ہمارا اللہ تعالی سے تعلق اور معاملہ صرف خیر اور صرف رحمت کی بنیاد پر ہے، جو کچھ بھی اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندے کے لیے قرار دیا جاتا ہے اس کے حوالے سے انسان کو عبودیت کی انتہا کا مظاہرہ ہی کرنا چاہیے، اسی لیے ایک مومن انسان ہمیشہ پرسکون اور پر وقار رہتا ہے، اس دنیا یا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے یہاں سے ایک اور دنیا میں منتقل ہو جانا ہے۔ ہاں البتہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حفاظت کرے اور ہمارا یہ عقیدہ ہے ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے ہمیں بالکل بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں بلکہ اللہ نے ہم پر واجب قرار دیا ہے کہ ہم اپنی حفاظت کریں شرعی حوالے سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس وبا کو معمولی نہ لیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں کیونکہ خدانخواستہ اگر یہ انسان کو لاحق ہوجاتی ہے تو ناصرف یہ اس کے اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نقصاندہ ہو سکتی ہے انسان اس حوالے سے ناصرف اپنے آپ کا ذمہ دار ہے بلکہ اپنے ارد گرد رہنے والوں، اپنے اپنے خاندان اور متعلقہ افراد کا بھی ذمہ دار ہے لہذا متعلقہ اطراف اور اہل اختصاص اس حوالے سے جو بھی ہدایات دے رہے ہیں ان پر عمل کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اور اس کا مقصد اپنی اور دوسرے لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔ یہ بات ایک مومن انسان کے اللہ کی تقدیر کو تسلیم کرنے کے متضاد نہیں ہے۔ اسی طرح سے ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم اپنی حفاظت کریں اور ہر ممکن وسائل کے ذریعے سے اپنے آپ کو کو اس وباء سے بچائیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ میرے خیال میں دینی محور اور نقطہ نظر کے حوالے سے اتنا ہی کافی ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کا دوسرا محور یا دوسرا زاویۂ گفتگو طبی نکتہ نظر ہے آپ جانتے ہیں کہ چار دن پہلے یعنی 21 رجب کو کسی کی طرف سے اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمی سید سیستانی صاحب (دام الله ظلّه الوارف) سے اسی بارے میں سوال پوچھا گیا تھا مجھے ان کا جواب یاد ہے اور آپ بھی اس سے آگاہی رکھتے ہیں لیکن میں ان کے جواب کے بعض جملوں کی تشریح اور وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ طب کا شعبہ ان شعبوں میں سے ہے کہ جس کی کاوشوں کی قدر کرنا ہم پر واجب ہے اسی لیے سیستانی صاحب نے جواب میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (مریضوں کا علاج، ان کی دیکھ بھال، اور ان سے متعلقہ امور کی انجام دہی واجب کفائی ہے) واجب کفائی کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی ان امور کی انجام دہی سے تعلق رکھتے ان پر اس کا سر انجام دینا واجب ہے اور کون سا ایسا گروہ ہے کہ جو ان امور کو سرانجام دیتا ہے تو سیستانی صاحب نے اس بارے میں فرمایا: (وہ تمام افراد جو ان امور کو سرانجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں) ان پر ان امور کا سرانجام دینا واجب ہے عام طور پر ان امور کو طبی عملہ یعنی ڈاکٹرز، نرسنگ اسٹاف اور اس کے علاوہ ان کے معاونین ہی اسے سرانجام دیتے ہیں۔ علاج معالجہ کرنے والے افراد کے پاس اس کے وسائل کا ہونا بھی ضروری ہے تو اس حوالے سے سیستانی صاحب نے فرمایا ہے (متعلقہ حکام پر واجب ہے ہے کہ وہ انھیں اس کام کو سرانجام دینے کے لیے ضروری اشیاء فراہم کریں) تو ان متعلقہ حکام سے مراد کون لوگ ہیں؟ اس سے مراد صاحبان اقتدار اور وہ لوگ ہیں کہ جن کے ہاتھوں میں ان وسائل کا مہیا کرنا ہے جن کے ہاتھوں میں یہ وسائل موجود ہیں لہذا ان پر واجب ہے کہ وہ ہر حوالے سے ان کی مدد کریں تاکہ طبی عملہ اپنے اس کام کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکے۔ سیستانی صاحب نے فرمایا ہے کہ (اس طبی عملے کو وسائل فراہم کرنے میں کوتاہی اس سے پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز نہیں ہے)۔ سیستانی صاحب نے اپنے جواب میں ایک خوبصورت موازنہ بھی کیا ہے وہ موازنہ ڈاکٹر بھائیوں اور میدان جنگ میں داعش اور اس طرح کے دوسرے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے والوں کے درمیان ہے میدان جنگ میں یہ سپاہی دشمنوں کو اپنے ملک اور اہل وطن تک پہنچنے سے روکتے ہیں اور اسی طرح سے ڈاکٹر حضرات بھی ایسی بیماریوں کے سامنے نے بند بناتے ہیں کہ جو لوگوں کو ہلاکت کی طرف لے جاتی ہیں، لہذا ڈاکٹروں کا اجر بھی خدا کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہے لہذا اگر کوئی معالج اپنا وظیفہ سرانجام دیتے ہوئے خدا ناخواستہ فوت ہو جاتا ہے تو اسے بھی شہادت کا درجہ ملتا ہے۔ ہمارے سامنے نے ایک بہت اہم صورت حال ہے ہم سب کے لیے متوجہ ہونا واجب ہے دینی نقطہ نظر سے مومن انسان ہمیشہ مطمئن اور پرسکون رہتا ہے لیکن دینی نقطہ نظر سے ہی اس کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کی حفاظت کرے اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالے لہذا اس حوالے سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم متخصص جہات کی باتوں پر اور ان کی تعلیمات پر عمل کریں اور اگر ہم اس پر عمل نہیں کرتے تو خدا ناخواستہ اپنے آپ کو ایسی مشکل میں ڈال دیں گے کہ جس کا تدارک ممکن نہیں رہے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر آئے روز اس بیماری کے انتہائی خوفزدہ کر دینے والے اعداد وشمار ہم تک پہنچ رہے ہیں وہ بعض ممالک جو اپنے آپ کو طب کے میدان میں بہت آگے سمجھتے ہیں وہ بھی اس کا بہت تیزی سے شکار ہو رہے ہیں، جو بھی شخص صحت کی خبروں کا مراجعہ کرتا رہتا ہے وہ کچھ دن پہلے تک اسے بالکل بھی تیزی سے اس صورت میں پھیلنے والی وباء نہیں سمجھتا تھا، اب اسے وباء سمجھا جا رہا ہے اور اس وائرس کے خطرات کے پیش نظر شدید ترین طبی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں لہذا میرے بھائیو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان تمام امور کو معمولی نہ لیں بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر ممکن طریقے سے ان طبی ہدایات پر عمل کریں تاکہ کہیں یہ نہ ہو ہو کہ اس کا نتیجہ کسی ناخوشگوار واقعے پر جا پہنچے۔ اللہ تعالی نے ہمیں بالکل بھی اس چیز کی اجازت نہیں دی کہ ہم اپنی جان کو جیسے مرضی ہو صرف کریں انسانی جان اور انسان سے متعلق امور کو سمجھداری اور علمیت کے ساتھ سرانجام دیں، ضروری ہے کہ ہم اہل اختصاص کی کاوشوں کو قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھیں جب اہل اختصاص کسی چیز کے بارے میں کسی بات پر زور دیتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے ہم اس پر عمل کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی اس بحران کو ختم کرے اور تمام ممالک اور لوگ امن و امان کے سائے میں آ جائیں۔

تیسرا نکتہ کہ جس کے اوپر میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ موجودہ صورت حال کا اجتماعی یا معاشرتی پہلو ہے آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ معاشرتی و اجتماعی محور سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے، رحم دلی اور ایک دوسرے کا احساس صفات حمیدہ سے ہے، تمام ملتوں، ادیان اور جہات کے لیے ضروری ہے کہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور احساس کا مظاہرہ کریں، نیکی کے ذریعے سے لوگ ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں لہذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی مدد کرے یہ تو وہ عمومی ہدایات ہیں کہ جو عام حالات میں ہوتی ہیں لیکن ان حالات میں ان پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ کوئی بھی شخص اس صورتحال کا غلط فائدہ نہ اٹھائے بعض گھٹیا اور کم ظرف لوگ اس نازک صورتحال کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں میں کہوں گا کہ اگر لوگ ان حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور احساس سے پیش آتے ہیں تو اللہ تعالی بھی ہم پر رحم کرے گا اور جلد سے جلد اس وباء اور اس مشکل کو ختم کردے گا۔ جہاں تک اس ملک میں جاری نازک حالات سے غلط فائدہ اٹھانے کی بات ہے تو اگر ہم لوگوں کی مدد کرنا بند کر دیتے ہیں دوسروں کی مالی و اخلاقی معاونت سے خود کو روک لیتے ہیں چیزوں کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں تو یہ صورتحال لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور مشکل ہو گی خاص طور پر وہ لوگ کہ جو ضروریات زندگی حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے میرے خیال میں یہ انتہائی بری بات اور انتہائی غیر مقبول چیز ہے۔ بہرحال میرے بھائیو یہ صورت حال ہم سے تقاضہ کرتی ہے کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار رہیں۔ اسی طرح سے میں طبی عملے کی کاوشوں کی بھی تعریف کروں گا اور اعلی دینی قیادت نے بھی طبی عملے کی کاوشوں کو بہت سراہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ دن رات کوششوں میں لگا ہوا ہے کہ اس مرض کو پھیلنے سے روکا جائے اس طرح کی صورتحال میں ضروری ہے کہ مریضوں کو بھی وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں کہ جس کی بدولت مریض اپنے آپ کو پرسکون محسوس کرے اور اس بحران سے نکلے۔ بہت سارے ممالک واضح طور پر اس بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد وہ بھی ہے جو اس مرض سے صحت یاب ہو چکی ہے تو اس لیے ضروری ہے ہم بھی اس بحران سے نکلنے کے لیے خوف سے ہٹ کر احتیاط کریں اور اسی طرح سے ہمیں ان چیزوں کو مذاق میں بھی نہیں لینا چاہیے لہذا ضروری ہے کہ نہ تو ہم ان چیزوں سے خوفزدہ ہوں اور نہ ہی ہم بے احتیاطی اور لاابالی پن کا مظاہرہ کریں انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ درمیانہ راستہ اختیار کرے۔ امید ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اس بلاء اور اس مشکل سے جلد نجات دے گا اللہ تمام لوگوں عافیت و سلامتی سے نوازے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمين، وصلّى الله على محمّدٍ وآله الطيّبين الطاهرين.
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: