چار شعبان حضرت عباس(ع) کے جشن میلاد کا پر مسرت دن

روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے تمام خدام قمر بنی ہاشم حضرت عباس بن علی علیھما السلام کے جشن میلاد کے پر مسرت موقع پر تمام محبان اہل بیت علیھم السلام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

نسب مبارک اور ولادت باسعادت

انساب عالم میں حضرت عباس علیہ السلام کے نسب سے بلند و معروف کوئی نسب نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا گھرانہ ان کے گھرانے سے افضل و اشرف ہے۔ پس وہ گھرانہ حضرت علی ابن ابی طالب علیھماالسلام کا گھرانہ ہے کہ جس سے بڑھ کر عظیم اور افضل و اشرف گھر بنی نوع انسان نے اپنے کسی بھی دور میں نہیں دیکھا۔ پس یہ حضرت علی علیہ السلام کاہی فضائل وکمالات سے لبریز گھر تھا کہ جس نے عالم اسلام کو فضیلت کے عناصرسے نواز ا اور اسے انسانیت کی فلاح و بہبود اور خیر وبھلائی کی راہ میں قربانی دیناسکھایا اور عمومی طور پر حیات بشری کو ایمان اور تقویٰ کی روح عطا کی۔ یہ اس شجرہ مبارکہ کی چند خصوصیات ہیں کہ جس کی ایک شاخ قمر بنی ہاشم اور فخر عدنان حضرت عباس علیہ السلام بھی ہیں.

والد گرامی:
حضرت عباس علیہ السلام کے والد گرامی حضرت امیرالمؤمنین، وصی رسول، باب مدینة العلم اور زوج بتول حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں کہ جو سب سے پہلے اللہ پر ایمان لائے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی اور ان کی منزلت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایسے ہی تھی کہ جیسے جناب ہارون علیہ السلام کی جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی۔
حضرت علی علیہ السلام ہی اسلام کے سب سے بڑے مجاہد اور کلمہ توحید کا نفاذ کرنے والے تھے انہوں نے اسلام کے عظیم اہداف کی لوگوں میں نشر واشاعت اور تبلیغ کی خاطر راہ خدا میں جہاد کیااور بہت زیادہ مصائب برداشت کیے۔
اس عظیم امام میں دنیا کے تمام فضائل وکمالات جمع تھے کہ جن کی بدولت کوئی بھی شخص علم و فضل میں ان کی برابری نہیں کر سکتا تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بڑی علمی شخصیت حضرت علی علیہ السلام کی صورت میں ہی دنیا کے سامنے ابھر کر آئی۔
پس حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کسی تعارف اور بیان کی محتاج نہیں ہے تمام اقوام عالم ان کے فضائل ومناقب کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
حضرت عباس علیہ السلام کے لئے فقط یہ فخر ہی کافی ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کے بھائی ہیں .

والدہ گرامی:
حضرت عبا س علیہ السلام کی والدہ گرامی کا نام مبارک حضرت فاطمہ علیھا السلام بنت حزام بن خالد تھا جو کہ ام البنین علیھا السلام کے نام سے مشہور ہیں۔
حضرت عباس علیہ السلام کے نانا جناب حزام عالم عرب کے شرف کے ستون تھے اور اپنی شجاعت و بہادری اور جود وسخاوت میں بہت مشہور تھے۔ پس حضرت عباس علیہ السلام کی والدہ کا خاندان اپنی شجاعت و شہامت اور بلندی میں بے مثل و بے مثال تھا اس خاندان کے بہت سے افراد شمشیر زنی، نیزہ بازی اور تیراندازی میں بہت زیادہ مشہور تھے ان میں کچھ کے نام اور مختصر احوال درج ذیل ہیں :
1 ـ عامر بن الطفيل:
یہ جناب ام البنین علیھا السلام کی دادی کے بھائی تھے کہ جو شجاعان عرب اور فرسان عرب میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت کے حامل تھے اور عالم عرب اور اس کے باہر ان کی شہرت عروج پر تھی۔ ان کی شہرت کی یہ حد تھی کہ جب عربوں میں کوئی شخص قیصر روم کے پاس جاتا تو اگر وہ شخص عامر بن طفیل کے عزیز و اقراباء میں سے ہوتا تو قیصر روم اس کے ساتھ بہت ہی عزت و اکرام کے ساتھ پیش آتا اور اگر اس کی عامر بن طفیل سے کوئی رشتہ داری نہ ہوتی تو وہ اس سے منہ موڑ لیتا۔
2 ـ عامر بن مالك:
یہ جناب ام البنین علیھا السلام کے دادا کے والد (پردادا)تھے، کہ جو اپنی شجاعت کی بدولت (ملاعب الأسنة) کے لقب سے مشہور تھے اور جنگی فنون میں مہارت اور شجاعت کے ساتھ ساتھ عامر بن مالک عہد وپیمان کی رعایت اور ظالموں کی سر کوبی کرنے میں تمام قبائل عرب میں بے مثل و بے مثال تھے، مؤرخین نے ان کے بارے میں بہت سے ایسے واقعات ذکر کئے ہیں کہ جن میں ان کی یہ صفات حمیدہ واضح نظر آتی ہیں۔
3 ـ طفيل:
یہ جناب ام البنین کی دادی عمرہ کے والد تھے جوکہ مشہور ترین جنگجو اور شہسوار عرب تھے اور ان کے بھائی بھی دلیری اور شجاعت میں اپنے زمانے میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے کہ جن میں ربیعہ، عبیدہ اور معاویہ شامل ہیں ان کی والدہ کو بھی ام البنین کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
4 ـ عروة بن عتبة:
یہ جناب ام البنین علیھا السلام کی پردادی کے والد ہیں کہ جو عرب قبائل اور اقوام عرب میں انتہائی معزز اور معروف شخصیت تھے، جب بھی وہ اپنے زمانے کے باد شاہوں کے پاس جاتے تو وہ ان کو انتہائی احترام و اکرام کی نظر سے دیکھتے اور بہت ہی قیمتی تحائف اور حسن سلوک کے ساتھ انہیں رخصت کرتے۔
جناب ام البنین کے عظیم صفات کے حامل آباؤاجداد میں سے ہم نے ان چند شخصیات کے بارے میں چند سطریں تحریر کی ہیں کہ جو اپنے بلند کردار اورعالی صفات میں مشہور تھے پس فطرت کی طرف سے بنے ہوئے وراثت کے قانون کے تحت یہ بلند پایہ صفات جناب ام البنین علیھا السلام تک ان کے آباؤ اجداد کی طرف سے پہنچیں اور ان سے پھر ان کے بیٹوں میں منتقل ہوئیں۔

عظیم مولود
جناب ام البنین علیھا السلام کے ہاں پیدا ہونے والا پہلا مولود عباس کے نام اور ابوالفضل کی کنیت سے معروف ہوا، اس مولود نے دنیا میں آتے ہی یثرب کو نئی زندگی عطا کی اور دنیا کو اپنی ولادت سے منور کیا اور خاندان علی(ع) کو خوشیوں اور فرحت و سرور کا تحفہ دیا۔ پس خاندان علی علیہ السلام اور بنی ہاشم میں ایک چاند ظاہر ہوا کہ جس کے فضائل وکمالات اور بلند کردار کی روشنی نے جہاں پوری دنیا کو نور بخشا وہاں بنی ہاشم کی شہرت، بقا اور دائمی ذکر کو مزید استحکام عطا کیا۔
جب حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کو اس مبارک مولود کی خوشخبری دی گئی تو امیر المؤمنین علیہ السلام فوراً گھر تشریف لائے اور اس مبارک مولو د کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا بوسہ لیا اور رسومات ولادت ادا کیں۔
امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس مولود کے دائیں کان میں اذان کے کلمات جاری کیے اور بائیں میں اقامت کے۔ پس ایمان و تقویٰ کی کائنات میں سردار کے دہن مبارک سے نکلنے والی اللہ اکبر ....لاالہ الا اللہ ..... کی صدا جناب عباس علیہ السلام کی روح کی گہرائیوں میں نقش ہو گئی اور اس طرح سے ان کی ذات میں کندہ ہوئی کہ ان کی ذات کا سب سے اہم عنصر بن گئی اور اسی الٰہی پیغام کی تبلیغ کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی وقف کر دی اور اسی کی خاطر ان کا جسم صحراء کربلا میں بکھر گیا۔
ولادت کے ساتویں دن جناب امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جناب عباس علیہ السلام کے بال منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کیا اور ایک گوسفند کا عقیقہ کیا جیسا کہ جناب امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر اسلامی سنت پر عمل کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔
محققین کے مطابق جناب عباس علیہ السلام کی تاریخ ولادت چار شعبان 26ہجری ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: