حضرت امام مہدی(ع) کے 1186ویں جشن میلاد کے پُر مسرت دن روضہ مبارک حضرت عباس(ع) پوری دنیا کو مبارک باد پیش کرتا ہے

حضرت امام مہدی(ع) کے جشن میلاد کے پُر مسرت موقع پر روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے تمام خدام اور الکفیل انٹر نیشنل نیٹ ورک کے سب ارکان پوری دنیا کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

اسی مناسبت سے ہم اپنے قارئین اور فالورز کی خدمت میں رسول اللہ کے بارہویں جانشین حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حیات طیبہ کے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں:

نام و لقب: آئمہ اہل بیت میں سےبارہویں اور آخری امام کا نام ’’م ح م د‘‘ ہے کہ جو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے ہیں ان کا معروف ترین لقب ’’مہدی‘‘ ہے اسی لقب کی وجہ سے آپ کو ’’امام مہدی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ولادت باسعادت: امام زمانہ(عج) کی ولادت باسعادت عباسی خلیفہ معتمد کی حکومت کے دوران 15شعبان 255ہجری کو سامراء میں ہوئی۔ امام زمانہ(عج) کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت تقسیم کیا اور تین سو دنبے عقیقہ کے طور پر ذبح کیے۔ والدہ ماجدہ: امام زمانہ(عج) کی والدہ کا نام جناب ’’نرجس‘‘ہے۔ اپنے بابا کی شہادت کے وقت امام زمانہ(عج) کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ نے حضرت یحیی کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی اور حضرت عیسی کو گہوارے میں ہی اپنا رسول بنایا اسی طرح اللہ تعالی نے امام زمانہ کو کم سنی میں ہی امامت کے منصب پہ فائز کیا انھیں دانائی اور حق وباطل میں تمیز کرنے والے فصل الخطاب سے نوازا اور انھیں پوری دنیا کے لیے اپنی حجت اور نشانی قرارا دیا۔ اس کتاب کے’’امام مہدی منتظر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں امام مہدی(عج) اور ان سے متعلق تمام امور کے بارے میں عقیدہ رکھنے کا پہلا اور بنیادی سبب اہل سنت اور شیعوں کی معتبر کتابوں میں موجود احادیثِ نبویہ(ص) ہیں، ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پہ اتفاق رہا ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت میں سے مہدی نام کا ایک فرد ظہور کرے گا جو دین کی مدد و تائید کرے گا اور عدل و انصاف کی بات کرے گا اور پوری دنیا پر حکومت حاصل کرنے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ غیبت: امام مہدی(عج) کی دو غیبتیں ہیں: پہلی غیبت کو غیبت صغری کہتے ہیں اور دوسری غیبت کو غیبت کبری کہا جاتا ہے۔

غیبتِ صغری: اس پہلی غیبت میں امام مہدی سوائے چند خاص لوگوں کے تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور شیعوں سے ان کا رابطہ اپنے نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رہا، شیعہ اپنے سوالات اور خطوط امام مہدی(عج) کے خاص سفیر کو دیتے اور وہ سفیر شیعوں کے خطوط کو امام مہدی تک پہنچا دیتا۔ امام مہدی(عج) کی طرف سے سوالوں اور خطوط کے جوابات کو متعلقہ افراد تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ہی ذمہ داری تھی امام مہدی(عج) کی طرف سے لکھے گئے خطوط وغیرہ پہ امام کی مہر اور ان کے دستخط ہوا کرتے تھے۔

74سال تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا اس عرصہ کو غیبتِ صغری کا نام دیا جاتا ہے اور اسے غیبت صغری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس عرصہ میں امام مہدی(عج) کا لوگوں سے مکمل طور پر رابطہ منقطع نہیں تھا۔

امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر: امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر اور نمائندے عثمان بن عمرو عمری اسدی تھے جناب عثمان بن عمرو پہلے امام علی نقی علیہ السلام اور پھر امام حسن عسکری علیہ السلام کے نمائندے تھے اور آخر میں امام مہدی(عج) کے نمائندے اور سفیر کی حیثیت سے آخری دم تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔

امام مہدی(عج) کے دوسرے سفیر: جب امام کے پہلے سفیر عثمان بن عمرو کا انتقال ہوا تو امام زمانہ(عج) کے حکم مطابق سفارت اور نمائندگی کے فرائض پہلے سفیر کے بیٹے محمد کو سونپ دیے گئے اس طرح محمد بن عثمان امام زمانہ(عج) کے دوسرے سفیر اور نمائندے بن گئے۔

امام مہدی(عج) کے تیسرے سفیر: دوسرے سفیر کی وفات کے بعد حسين بن روح نوبختی کو امام زمانہ(عج) کے خاص نمائندے اور سفیر بننے کا شرف حاصل ہوا۔

امام مہدی(عج) کے چوتھے سفیر: اپنے تیسرے سفیرکے اس دنیا سے رخصت ہونے پہ علی بن محمد سمری کو امام زمانہ(عج) نے اپنا سفیر اور نمائندہ مقرر کیا۔



غیبتِ كبرى: جب چوتھے سفیر بھی انتقال کر گئے تو ان کے انتقال کے ساتھ ہی غيبت صغرى بھی اختتام پذیر ہو گئی اور غیبت کبری کا آغاز ہو گیا۔

غيبت كبرى کا آغاز پندرہ شعبان 328ہجری سے ہوا، اس کے بعد شیعوں کا امام زمانہ(عج) سے خصوصی نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رابطہ منقطع ہو گیا اور اللہ تعالی ہی اس کی اصل وجہ اور اس میں پوشیدہ حکمت سے آگاہ ہے۔

غیبت کبری کا مسئلہ اللہ کے اسرار میں سے ہے اور خدائی اسرار میں شک سرکشی ہے کیونکہ خدا کے اسرار سے آگاہ نہ ہونا ان سے انکار کا عذر نہیں بن سکتا کیونکہ جو کچھ بھی اس کائنات میں موجود ہے اسے تفصیلی طور پر جاننا ضروری نہیں ہے ہم سب مسلمان قرآن کے ایک ایک حرف پہ ایمان رکھتے ہیں حالانکہ ہم میں سے اکثریت کو قرآنی الفاظ کے معانی معلوم نہیں ہیں۔ قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی سے ہم میں سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہے کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے معانی کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ اور حضرت محمد(ص) کے پاس ہے جبکہ ہم شیعہ کہتے ہیں قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی کا علم اللہ تعالی، رسول خدا(ص) اور آئمہ طاہرین(ع) کے پاس ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: