روایت کے مطابق حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو معتصم بن ھارون نے زہر دے کر ماہ ذی القعدہ کے آخری دن (220هـ) شہید کیا
المناک یادوں سے وابستہ اس دن کی آمد پہ روضہ مبارک حضرت عباس(ع) میں ہر طرف حزن وملال اور سوگ کے آثار نمایاں ہیں ہر طرف سیاہ چادریں اور سیاہ علم آویزاں ہیں ہر چہرہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی المناک شہادت اور مصائب کی یاد میں غمگین ہے....
روضہ مبارک حضرت عباس(ع) میں ماتم داری اور مجالس عزاء کا سلسلہ بھی جاری ہے کہ جس میں مومنین کی بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے اور شہر کی مختلف انجمنوں کے جلوس عزاء بھی حرم میں آ کر پرسہ پیش کر رہے ہیں۔
اس دن کی مناسبت سے کچھ جملے امام محمد تقی علیہ السلام کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام:
نام، کنیت اور لقب: آئمہ اہل بیت میں سے نویں امام حضرت محمد بن علی علیہ السلام ہیں۔ آپ کا نام ’’محمد‘‘ ہے اور مشہور لقب ’’تقی‘‘ اور ’’جواد‘‘ ہے اسی وجہ سے آپ کو امام محمد تقی یا امام محمد جواد کہا جاتا ہے۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ہے۔ تاریخ ومقام ولادت اور شہادت: آپ کی ولادت باسعادت سن195 ہجری میں ہوئی اور آپ نے سن220 ہجری میں 25سال کی عمر میں جام شہادت نوش کیا۔ آپ نے اپنے والد کے ساتھ 7سال زندگی گزاری اور اپنے والد کی شہادت کے بعد 18سال زندہ رہے۔ والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ ام ولد ہیں کہ جن کا نام جناب سکن ہے۔ اولاد: شیخ مفید لکھتے ہیں کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں بیٹے امام علی نقی علیہ السلام اور موسی ہیں جبکہ بیٹیوں کے نام فاطمہ اور امامہ ہیں۔ مامون کے ساتھ: شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جب مامون نے دیکھا کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے کم سنی میں ہی ظاہر ہونے والے فضائل و مناقب، علم و دانائی، تہذیب و ادب اور عقل کے کمال میں اُس زمانے کا کوئی بھی شخص برابری نہیں کر سکتا تو اس کا دل امام محمد تقی علیہ السلام کے لیے ظاہری طور پر نرم ہو گیا اور اس نے اپنی بیٹی ام فضل کی شادی امام محمد تقی علیہ السلام سے کر دی اور اسے امام کے ساتھ ہی مدینہ بھیج دیا۔ مامون ہمیشہ امام محمد تقی علیہ السلام کی بہت زیادہ تعظیم کرتا۔ عباسیوں نے مامون کو اپنی بیٹی کی شادی امام محمد تقی علیہ السلام سے کرنے سے روکا اور کہا: ہم تمہیں اللہ کا واسطہ دیتے ہیں جس کام کا تم نے ارادہ کیا ہے اسے نہ کرو، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں حکومت ہمارے ہاتھ سے نہ نکل جائے اور ہمارے اور ابو طالب کی اولاد کے درمیان جو کچھ ہے اسے تم باخوبی جانتے ہو۔ مامون نے ان کے جواب میں کہا: جو اختلاف و دشمنی تمہارے اور ابوطالب کی اولاد میں ہے اس کا سبب تم خود ہو اگر تم انصاف سے کام لو تو وہ تم سے زیادہ افضل و اولی ہیں، میں نے محمد بن علی(ع) کو اختیار کر لیا ہے کیونکہ وہ اپنی کم سنی کے باوجود تمام اہلِ علم و فضل سے برتر اور افضل ہے عنقریب وہ تمہارے سامنے آئے گا اور پھر تمہیں بھی معلوم ہو جائے گا کہ صحیح فیصلہ وہی ہے جو میں نے کیا ہے۔ عباسیوں نے کہا: وہ تو ابھی کافی چھوٹا ہے اس کے پاس علمی معرفت، فقہ اور سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ مامون نے کہا: تمہاری بربادی ہو میں اُسے تم سے زیادہ جانتا ہوں، وہ اہل بیت میں سے ہے اور اہل بیت کا علم اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتا ہے، اب تک اس کے آباء و اجداد دینی و ادبی علوم میں لوگوں سے بے نیاز ہیں اگر تم چاہتے ہو تو اس کا امتحان لے لو تاکہ تم پر بھی یہ بات واضح ہو جائے۔ عباسیوں نے کہا: ٹھیک ہے ہم اس بات پہ راضی ہیں۔ پھر عباسیوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس یحیی بن اکثم کو امام محمد تقی(ع) کے مقابلے میں لایا جائے۔ مقررہ دن عباسی اپنے قاضي القضاة يحيى بن اكثم کو مامون کے دربار میں لے آئے، جبکہ مامون کے ساتھ امام محمد تقی(ع) تشریف لائے، اس علمی مقابلے کو دیکھنے کے لیے دونوں کے گرد لوگوں کی بہت بڑی تعداد جمع تھی۔ یحیی بن اکثم نے امام محمد تقی(ع) سے پوچھا: احرام کی حالت میں شکار کرنے والے کا کیا کفارہ ہے؟ تو امام محمد تقی(ع) نے اس سے کہا: کیا اس نے حرم کے علاقے میں شکار کو مارا ہے یا حرم کے علاقہ سے باہر ایسا کیا ہے؟ کیا وہ احرام میں شکار کرنے کے حرام ہونے کو جانتا تھا یا اسے اس کا علم نہیں تھا؟ کیا اس نے جان بوجھ کر ارادی طور پر شکار کیا یا اس سے یہ کام غلطی سے ہو گیا؟ احرام میں شکار کرنے والا آزاد تھا یا کسی کا غلام تھا؟ کیا وہ کم سن تھا یا بڑا تھا؟ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا بار بار شکار کر چکا تھا؟ شکار پرندہ تھا یا کو ئی اور جانور تھا؟ شکار چھوٹے پرندوں میں سے تھا یا وہ بڑا پرندہ تھا؟ شکار ی شکار کرنے پر مُصِر تھا یا اسے ایسا کرنے پہ شرمندگی تھی؟ اس نے یہ شکار رات میں کیا تھا یا دن میں؟ اس نے حج کے لیے احرام باندھا تھا یا عمرہ کے لیے؟ امام کی گفتگو سننے کے بعد یحییٰ کے ہوش اڑ گئے اُس نے اپنے ذہن میں کبھی اتنی شقیں نہیں سو چی تھیں وہ عاجز اورخاموش ہو گیا۔ مجمع میں اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں، سب پر یہ آشکار ہو گیا کہ اللہ نے اہل بیتbکو علم و حکمت اور دانائی اسی طرح عطا کی ہے جس طرح اُس نے انبیاء اور رسولوں کو عطا کی تھی۔ یہ سب دیکھ کر مامون نے کہا:اِس نعمت اور توفیق پر خدا کی حمد وثنا ہے۔ پھر مامون نے اپنے خاندان والوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: کیا تمہیں اب اُس کی معرفت ہو گئی جس کا تم انکار کر رہے تھے ؟ عباسیوں نے کہا: تم نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں تم ہم سے زیادہ جانتے ہو۔ مامون نے کہا: یہ جو فضل و کمال تم دیکھ رہے ہو پوری مخلوق میں صرف اس گھرانہ کے افراد کو عطا کیا گیا ہے، ان کی کم سنی ان کے کمالات میں حائل نہیں ہوتی، رسول خدا (ص) نے حضرت علی(ع) کو جب اسلام کی دعوت دی تو وہ دس سال کے تھے رسول خدا (ص) نے حضرت علی(ع) سے ان کے اسلام کو قبول کیا اور ان کے لیے اسلام کا حکم لگایا، جس طرح سے حضرت علی(ع) کو اس کم سنی میں اسلام کی دعوت دی گئی اس طرح سے کسی بھی دوسرے کم سن بچے کو اسلام کی دعوت نہیں دی گئی، امام حسن(ع)اور امام حسین(ع)نے جب بیعت کی تھی تو وہ چھ سال کے بھی نہیں تھے ان دونوں کے علاوہ کسی بچے نے بیعت نہیں کی، کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اس گھرانے کو خاص قرار دیا ہے، ان میں سے بعض ذریت ہیں بعض کی، اور ان کے آخری کے لیے بھی وہی حکم جاری ہوتا ہے جو پہلے کے لیے ہے۔ مامون کے خاندان والوں نے کہا: تم سچ کہتے ہو۔ اللہ تعالی کے اس فرمان: وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا سورۃ مریم آیت12 یعنی: اور ہم نے انھیں (یحیی کو) بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی۔ اور قرآن میں مذکور ہے: فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا سورۃ مریم آیت29 یعنی: جناب مریم نے اس بچہ کی طرف اشارہ کردیا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس سے کیسے بات کریں جو گہوارے میں بچہ ہے، بچہ نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ قرآن کی ان آیات کے مطابق کم سنی اور بچپنے میں ہی امامت کے منصب پہ فائز ہونا ممکن ہے کیونکہ اگر یہ محال ہوتا تو یہ انبیاء اور آئمہ دونوں میں ہی محال ہوتا۔ اہل بیت کا چاہنے والا حکمران: ایک دن امام محمد تقی علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا اس نے امام(ع) سے کہا: اے رسول خدا (ص) کے فرزند ہمارا حکمران آپ اہل بیت کا چاہنے والا ہے اور میرے ذمہ اس کے رجسٹر میں خراج وٹیکس دینا ہے اور میں اسے ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کو ایک خط لکھ دیں کہ وہ مجھ سے احسان و نیکی سے پیش آئے..... جیساکہ میں نے کہا ہے وہ آپ کے چاہنے والوں میں سے ہے اور اس کے پاس آپ کا خط میرے لیے فائدہ مند ہو گا۔ امام(ع) نے اس حکمران کے نام اپنے خط میں لکھا: بسم اللّه الرحمن الرحيم، ان موصل كتابي هذا اليك ذكر عنك مذهباً جميلاً، وانه ليس لك من عملك إلا ما احسنت، فاحسن إلى اخوانك، واعلم ان اللّه سائلك عن مثاقيل الذر والخردل. یعنی:شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا رحم کرنے والا اور بہت مہربان ہے، تمہارے پاس میرے اس خط کے پہنچانے والے نے تمہارے بارے میں اچھے مذہب کا ذکر کیا ہے، تمہاری کی ہوئی نیکی کے علاوہ تمہارا کوئی عمل تمہارے کام نہیں آئے گا، اس لیے اپنے بھائيوں کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ اور یاد رکھو اللہ تعالی تم سے سرسوں کے دانے اور ذرے کے برابر چيز کے بارے میں بھی پوچھے گا۔ یہ خط لکھوانے والا شخص کہتا ہے کہ میں اس خط کو اپنے گورنر حسين بن عبد اللہ نيشاپوری کے پاس لے گیا اس نے خط کو چوما، اپنی آنکھوں سے لگایا اور مجھ سے کہا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ میں نے کہا: تمہارے ریکارڈ میں میرے ذمہ خراج و ٹیکس ہے۔ یہ سن کر گورنر نے مجھ سے خراج نہ لینے کا حکم جاری کیا اور مجھ سے کہا: جب تک میرے پاس یہ منصب ہے تم خراج نہ دینا، پھر اس نے میرے لیے کچھ مال دینے کا بھی حکم دیا، اور وہ مرتے دم تک میرے ساتھ احسان و نیکی سے پیش آتا رہا۔ میں نے یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے لکھا ہے جو اپنے آپ کو اہل بیت کا شیعہ سمجھتے ہیں اور جب انھیں کوئی منصب مل جاتا ہے تو وہ آل رسول (ص) کے ہر چاہنے والے سے ناآشنا بن جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اہل بیت سے محبت اُن کے چاہنے والوں اور موالین کے لیے اخلاص کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔ معتصم کا رویہ: مامون کے مرنے کے بعد جب معتصم خلیفہ بنا تو وہ امام محمد تقی علیہ السلام کو زبردستی بغداد لے آیا اور پھر اُنھیں قتل کرنے کے درپے ہو گیا اور بالآخر اس نے امام محمد تقی(ع) کو زہر سے شہید کروا دیا اور شہادت کے بعد امام محمد تقی(ع) کو اُن کے دادا امام موسی کاظم (ع) کے جوار میں دفنا دیا گیا۔