عاشور کی رات امام حسین(ع) اور ان کے اصحاب نے کیسے بسر کی

روایات میں مذکور ہے کہ 9محرم بوقت عصر عمر سعد نے اپنے لشکر کو امام حسین(ع) کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا، جس کے بعد صحراء کربلا میں عمر سعد کے لشکر کی نقل و حرکت بڑھ گئی لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہو گیا۔

اس وقت امام(ع) اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے. حضرت زینب(س) لشکر کوفہ میں شور و غل کی صدائیں سن کر اپنے بھائی کے قریب آئیں اور کہا: کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟. امام حسین(ع) نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا رسول اللہ(ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤ گے". امام حسین(ع) نے عباس بن علی(ع) سے فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟".
حضرت عباس(ع)، زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کے لشکر کی طرف گئے اور اور ان سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟ اور تم چاہتے کیا ہو؟" انھوں نے کہا: "امیر کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا بیعت کرو یا جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ". حضرت عباس(ع) نے کہا: "اپنی جگہ سے ہلو نہیں یہاں تک کہ میں ابا عبد اللہ(ع) کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپ(ع)کو پہنچا دوں". وہ مان گئے چنانچہ حضرت عباس(ع) اکیلے امام حسین(ع)کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ انہیں صورت حال سے آگاہ کریں۔
امام حسین(ع) نے حضرت عباس(ع) سے فرمایا: "اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کی ہمیں مہلت دیں تاکہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی بارگاہ میں نماز بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں۔
جب حضرت عباس(ع) امام حسین(ع) کی خدمت میں تھے، اس دوران ان کے ساتھی حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین ابن سعد کے لشکر سے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور انھیں امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے اور ابن سعد کے سپاہیوں کی پیش قدمی روکنے کی سعی کر رہے تھے۔
ابوالفضل العباس(ع) دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور امام حسین(ع) کی خواہش کے مطابق ان سے اس رات کی مہلت مانگی. ابن سعد نے امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب سے اگلے دن تک کے لیے جنگ کو ملتوی کر دیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں اس روز کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: نو محرم وہ دن ہے جس دن حسین(ع)اور اصحاب حسین کربلا میں محصور ہوئے اور شامی سپاہ ان کے خلاف اکٹھی ہوئی. ابن مرجانہ / ابن زیاد اور عمر سعد اتنا بڑا لشکر فراہم ہونے پر خوش ہوئے اور اس دن حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور انھوں نے یقین کر لیا کہ حسین(ع) کے لئے کوئی مدد نہیں آئے گی اور عراقی آپ(ع) کی مدد نہیں کریں گے۔
شب عاشور
تاسوعا یعنی نو محرم کا دن ڈھل گیا اور رات چھا گئی تو امام حسین(ع) نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں اپنے اصحاب سے زيادہ وفادار اور بہتر اور اپنے خاندان سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور نیکو کار کسی کو بھی نہیں پاتا، کل جنگ کا دن ہے چنانچہ میری طرف سے تم پر کوئی ذمہ نہیں ہے میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا دی، پس میں اجازت دیتا ہوں کہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ لو اور چلے جاؤ۔
امام(ع) کا کلام اختتام پذیر ہوا تو اصحاب و انصار یکے بعد دیگر اٹھے اور آپ کا ساتھ دینے، آپ سے مکمل وفاداری کرنے اور آپ کے ساتھ بیعت میں ثابت قدمی کے سلسلے میں اظہار خیال کیا۔ سب سے پہلے ابوالفضل العباس(ع)اٹھے اور ان کے بعد ان کے سگے بھائی اور اہل بیت رسول(ص) کے دوسرے نوجوانوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے سید الشہداء(ع) کی مدد و حمایت کے سلسلے میں خطاب کیا۔
امام(ع) اولاد عقیل سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: "اے فرزندان عقیل! مسلم کی شہادت تمہارے لئے کافی ہے، پس تم اٹھ کر چلے جاؤ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی!"، لیکن انھوں نے جواب دیا: "...خدا کی قسم! ایسا ہرگز نہیں کریں گے ہم اپنی جان اور مال اور خاندان کو آپ پر قربان کریں گے اور اور آپ کے ساتھ مل کر لڑیں گے..."
اہل بیت(ع) کے بعد مسلم بن عوسجہ، سعید بن عبداللہ حنفی، اور زہیر بن قین اور ان کے بعد دوسرے اصحاب نے شہادت تک آپ کے ہمراہ لڑنے اور آپ کی مدد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
بعد ازاں امام(ع) نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بے شک میں کل مارا جاؤں گا اور تم سب بھی مارے جاؤ گے"۔
اصحاب نے کہا: خدا کا شکر کہ اس نے ہمیں آپ کی نصرت کی توفیق دے کر عزت بخشی اور ہمیں آپ کے ساتھ شہادت عطا کر کے شرف بخشا؛ اے فرزند دختر رسول(ص)! کیا آپ پسند نہیں کرتے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جنت کے ایک درجے میں ہوں۔

امام سجاد(ع) سے مروی ہے کہ امام حسین(ع)کے خطاب اور اصحاب کے پرجوش جواب کے بعد، امام(ع) نے ان سب کے حق میں دعا کی۔
اس رات بریر بن خضیر نے امام(ع) سے اجازت مانگی کہ جا کر عمر بن سعد کو نصیحت کریں۔ امام(ع) نے اجازت دی۔ بریر عمر بن سعد کی طرف گئے اور جب واپس آئے تو عرض کیا: "اے فرزند رسول خدا(ص) ابن سعد ملک رے کی حکمرانی کے عوض آپ کے قتل کے لئے تیار ہوا ہے"۔
مروی ہے کہ آپ آدھی رات اکیلے خیام سے باہر آئے اور اطراف کی بلندیوں اور پستیوں کا جائزہ لیا، اس رات امام حسین(ع) نے خیام کے ارد گرد خندق کھدوائی اور آپ کے ہدایت پر اس خندق کو لکڑیوں اور سوکھی جڑی بوٹیوں سے بھر دیا گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ دشمن کا حملہ شروع ہوتے ہی ان لکڑیوں اور خس و خاشاک کو آگ لگا دیں تاکہ جنگ کے دوران دشمن خیام کے عقب سے حملہ آور نہ ہوں۔
امام(ع) نے حکم دیا کہ اپنے خیمے ایک دوسرے سے ملا دیں اور ایک خیمے کی رسیاں دوسری خیموں کی رسیوں سے متصل کر دیں اور انہیں اس طرح سے نصب کریں کہ خود خیام کے اندر ہوں [اور باہر سے کوئی خیام کے بیچ داخل نہ ہوسکے] اور صرف ایک طرف سے دشمن کا سامنا کریں اور خیام ان کی پشت پر اور دائیں اور بائیں اطراف میں واقع ہوں اور صرف وہی راستہ کھلا رہے جہاں سے دشمن آتا ہے اور باقی ہر طرف سے آنے والے راستے بند رہیں۔
اصحاب کا تجدید عہد
آدھی رات کو ابو عبداللہ الحسین(ع) باہر نکلے تو نافع بن ہلال جملی بھی امام(ع) کے پیچھے پیچھے آ گئے۔ خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسین(ع) اپنی بہن جناب زینب کبری(س) کے خیمے میں داخل ہوئے۔ نافع بن ہلال خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ جناب زینب(س) نے بھائی حسین(ع) سے عرض کیا: کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ بھی کیں ہم سے منہ نہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کی تحویل میں دے دیں"۔
امام(ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں دیکھا کہ وہ سینہ سپر ہو گئے ہیں اس طرح سے کہ موت کو گوشۂ چشم سے دیکھتے ہیں اور میری راہ میں موت سے (ماں کے سینے سے طفل شیرخوار کی انسیت کی مانند) انسیت رکھتے ہیں۔
نافع نے محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسین آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ حبیب بن مظاہر اسدی سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر اہل بیتِ امام حسین کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسین(ع) کا دفاع کریں گے۔
حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام(ع) کو بلایا اور ان کے ہمراہ سونتی ہوئی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بآواز بلند کہا: "اے حریم رسول خدا(ص) یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں تا آنکہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہے۔
شب عاشور امام(ع) نے اپنے بیٹے امام سجاد(ع) کی موجودگی میں اپنی بہن حضرت زینب کبری(س) کو صبر و بردباری کی تلقین کی۔

روایات کے مطابق امام حسین(ع) اور ان کے اصحاب نے شب عاشور کا زیادہ وقت عبادت اور تلاوت قرآن میں بسر کیا۔ روایت ہے کہ خیر البشر صلی اللہ علیہ و آلہ کے نور دیدہ کے لشکرِ سعادت کے خیام سے خیموں سے تلاوت کی آواز مسلسل اٹھ رہی تھی راوی کہتا ہے خیام حسینی سے ذکر و تلاوت و نماز و مناجات کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کے بھنبھانے کی سی آواز اٹھ رہی تھی۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: