کربلا میں قبیلہ بنی اسد اور دیگر عراقی قبائل کا شہداء کربلا کے یوم دفن ماتمی جلوس

ویسے تو پوری دنیا میں موجود مؤمنین ہمیشہ سے ہی شہداء کربلا کے دفن والے دن مجالس عزاء برپا کرتے ہیں اور ماتمی جلوس نکالتے ہیں لیکن امام حسین(ع) اور باقی شہداء کی تدفین کے دن کربلا میں برآمد ہونے والا قبیلہ نبی اسد کا سالانہ ماتمی جلوس کربلا کی تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
ہر سال کی طرح امسال بھی شہداء کربلا کی تدفین کے دن 13محرم1442ھ بمطابق 2ستمبر 2020ء کو کربلا میں عزاء بنی اسد کے نام سے ایک بہت بڑا ماتمی جلوس برآمد ہوا کہ جس میں قبیلہ بنی اسد اور مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے کربلا اور دوسرے شہروں کے لاکھوں عزاداروں نے شرکت کی، ہر قبیلہ کی ماتمی انجمن کے آگے آگے اس قبیلہ کے سردار اور بزرگ افراد ماتم کر رہے تھے جبکہ جلوس میں سب سے آگے قبیلہ بنی اسد کی ماتمی انجمن اور قبیلہ کے سردار اور بزرگ تھے۔
اس ماتمی جلوس کے پیچھے قبیلہ بنی اسد اور دیگر قبائل کی خواتین کا بھی بہت بڑا جلوس تھا کہ جو سب خاندان رسالت کی خواتین کو پرسہ پیش کرنے کے لیے کربلا آئی تھیں۔
یہ جلوس بعد از ظہر سید جودہ نامی مقام سے شروع ہوا اور مدینہ قدیمہ کے گرد موجود سڑک سے ہوتا ہوا شارع امام حسین علیہ السلام پر آیا اور پھر روضہ مبارک امام حسین علیہ السلام اور ما بین الحرمین سے ہوتا ہوا روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام میں پہنچا کہ جہاں یہ جلوس اختتام پذیر ہو گیا۔
"عاشوراء" حق کی سر بلندی کے لیے شہداء کے خون سے لکھی گئی وہ تاریخ ہے کہ جس کا ہر باب دل دھلا دینے والے مصائب پر مشتمل ہے عاشورء کی تاریخ کا ہر لفظ مؤمنین کے دلوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
تیرہ محرم وہ دن ہے کہ جس میں حضرت امام سجاد علیہ السلام با اعجاز امامت کوفہ سے کربلا آئے اور حضرت امام حسین علیہ السلام، علمدارِ وفا حضرت عباس علیہ السلام اور باقی تمام شہداء کو قبیلہ بنی اسد کے ساتھ مل کر دفن کیا لہذا ہر سال قبیلہ بنی اسد کے لوگ شہداء کربلا کی تدفین کے دن کربلا میں بہت بڑا ماتمی جلوس نکالتے ہیں اور امام حسین(ع) اور شہداء کربلا کو پرسہ اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
سن 1975ء میں حزب بعث کی حکومت نے اس جلوس عزاء پر پابندی لگا دی تھی جس کی وجہ سے حزب بعث کی حکومت کے خاتمہ تک قبیلہ بنی اسد کا یہ ماتمی جلوس برآمد نہ ہو سکا لیکن ظالمانہ حکومت کے 2003ء میں خاتمہ کے بعد آنے والے پہلے ہی محرم کی تیرہ تاریخ کو یہ ماتمی جلوس دوبارہ مکمل عقیدت و احترام، حزن و ملال اور غم و الم کے ماحول سن2004ء کو برآمد ہوا اور ہر سال اس جلوس میں شرکت کرنے والے عزاداروں اور قبائل کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھتے ہیں:
تیرہ محرم 61ہجری کو بنی اسد کی خواتین دریائے فرات سے پانی لینے آئيں تو انھوں نے زمین پر بہت سے لاشے بکھرے ہوئے دیکھے کہ جن کے جسموں سے تازہ خون بہہ ایسے رہا تھا کہ گویا انھیں آج ہی شہید کیا گیا ہے، خواتین یہ منظر دیکھ کر روتی ہوئيں واپس اپنے قبیلے والوں کے پاس گئيں اور ان سے کہا: تم یہاں اپنے گھروں میں بیٹھے ہو اور رسول خدا(ص) کے بیٹے امام حسین(ع) اور اس کے اہل و عیال اور ساتھیوں کو ریت پہ قربانی کے جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا ہے، جب تم رسول خدا(ص)، امیرالمومنین(ع) اور حضرت فاطمہ(ع) کی بارگاہ میں حاضر ہو گے تو ان کے سامنے کیا عذر پیش کرو گے؟ اگرچہ تم نے امام حسین(ع) کی مدد ونصرت کا موقع کھو دیا ہے لیکن ابھی اٹھو اور جا کر ان پاک وپاکیزہ لاشوں کو دفن کرو، اگر تم نے ان کو دفن نہ کیا تو ہم خواتین خود جا کر ان کے دفن کے کام کو سرانجام دیں گی، اس کے بعد بنی اسد کے مرد ان پاک طاہر لاشوں کو دفن کرنے کے لیے آ گئے لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ کون سا لاشہ کس کا ہے؟
یہ لوگ اسی شش و پنج میں کھڑے تھے کہ ان کے پاس ایک گھوڑا سوار نمودار ہوا کہ جو روتے ہوئے انھیں کہہ رہا تھا میں تمہاری ان لاشوں کے بارے میں رہنمائی کرتا ہوں، اس کے بعد وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور مقتولین کے پاس سے گزر کر اپنے بابا امام حسین(ع) کے لاشہ کے پاس جا کر رک گئے پھر بیٹھ کر لاشہ کو گلے لگا لیا اور اونچی آواز میں رونا اور لاشہ کے بوسے لینے شروع کر دیا اور فرمایا: اے میرے بابا آپ کے بعد ہمارا کرب و الم بہت لمبا ہو گیا ہے۔۔۔ اے بابا آپ کے بعد ہمارا حزن وغم بہت طولانی ہو گیا ہے۔۔۔ پھر امام زین العابدین(ع) اپنے بابا کی قبر والی جگہ آئے اور وہاں سے تھوڑی سی مٹی اٹھائی تو پہلے سے ایک بنی بنائی قبر ظاہر ہو گئی، اس کے بعد امام زین العابدین(ع) نے اپنے بابا کے لاشہ کو تنہا ہی قبر میں رکھ دیا، امام حسین(ع) کے لاشہ کو قبر میں اتارنے میں امام زین العابدین(ع) نے بنی اسد سے مدد نہ لی اور ان سے فرمایا: میرے ساتھ میری اس سلسلہ میں مدد کرنے والے افراد موجود ہیں، امام زین العابدین(ع) نے اپنے بابا کے لاشہ کو قبر میں رکھنے کے بعد اپنا رخسار ان کے کٹے ہوئے گلے پر رکھ کر فرمایا: سعادت و خوشبختی ہے اس زمین کے لیے جس نے آپ کے جسم کو اپنے اندر سمویا، اے بابا آپ کے بعد یہ دنیا اندھیری ہو گئی ہے اور آخرت آپ کے ذریعے چمک اٹھی ہے، بابا آپ کے بعد راتیں جاگتے ہوئے گزریں گی اور حزن و غم کبھی ختم نہ ہو گا، امام زین العابدین(ع) نے اپنے بابا کو دفن کرنے کے بعد ان کی قبر پہ یہ لکھا: هذا قبر الحسين بن علي بن أبي طالب (عليه السلام)، الذي قتلوه عطشاناً غريباً.(یہ حسین بن علی بن ابی طالب کی قبر ہے کہ جس کو اپنے وطن سے دور ان لوگوں نے پیاسا قتل کر ڈالا)۔
امام حسین(ع) کو دفن کرنے کے بعد امام زین العابدین(ع) اپنے چچا حضرت عباس(ع) کے لاشہ کے پاس آئے اور انھیں اس حالت میں دیکھا کہ جس کی وجہ سے آسمان پہ ملائکہ بھی تڑپ اٹھے اور جنت کے محلات میں رہنے والی حوریں بھی رونے لگیں، امام زین العابدین(ع) اپنے چچا حضرت عباس(ع) کے لاشہ پہ گر گئے اور کٹے ہوئے گلے کو بوسہ دے کر فرمایا: اے بنی ہاشم کے چاند تیرے بعد دنیا اندھیری ہو گئی ہے اے شہادت کا درجہ پانے والے میرا آپ پہ سلام ہو اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں آپ پہ نازل ہوں۔ اس کے بعد امام زین العابدین(ع) نے قبر بنائی اور اپنے چچا حضرت عباس(ع) کے لاشہ کو بھی اپنے بابا کی طرح تنہا دفن کیا۔
امام زین العابدین(ع) نے اپنے چچا حضرت عباس(ع) کو دفن کرنے کے بعد بنی اسد کو باقی تمام شہداء کی تدفین میں شریک کیا اور ان کو دو قبریں بنانے کا حکم دیا ایک میں امام علیہ السلام نے بنی اسد کی مدد سے بنی ہاشم کو دفن کیا اور دوسری قبر میں باقی تمام اصحاب کو دفن کیا، البتہ جناب حر(ع) کے لاشہ کو ان کے قبیلے والے عاشور کو ہی وہاں لے گئے تھے کہ جہاں آج ان کا مزار ہے۔
جب امام زین العابدین(ع) تمام لاشوں کو دفنانے کے بعد واپس جانے کے لیے گھوڑے پہ سوار ہوئے تو بنی اسد نے ان سے چمٹ گئے اور کہنے لگے: آپ کو ان ہستیوں کا واسطہ کہ جن کو آپ نے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ہے آپ یہ تو بتاتے جائیں آپ ہیں کون؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں اللہ کی طرف سے تم پر حجت ہوں میں علی بن حسین(ع) ہوں۔
اس کے بعد امام زین العابدین(ع) جس طرح بااعجاز امامت کوفہ سے کربلا آئے تھے اسی طرح واپس چلے گئے اور اسیرانِ کربلا کے ساتھ مل گئے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: