یزید کی بیوی ہند اور اسیران کربلا میں ملاقات

ایک روایت میں ہے کہ جس وقت قیدیوں کو دمشق میں لایا گیا تھا تو اس وقت ایک عورت یزید کی بیوی ہند کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ اے ہند ابھی ابھی کچھ قیدی آئے ہیں انہیں دیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے۔ آؤ چلیں وہیں دل بہلائیں ہند اٹھی اور اس نے عمدہ لباس زیب تن کیا اور اپنی سر تا پا چادر اوڑھی اور دوپٹہ سر کر کے اس مقام پر آئی اور اس نے خادمہ کو حکم دیا کہ ایک کرسی لائی جائے۔ جب وہ کرسی پر بیٹھ گئی تو زینب کی نظر اس پر پڑی آپ نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اسے پہچان لیا اور اپنی بہن ام کلثوم سے کہا بہن کیا آپ نے اس عورت کو پہچان لیا ہے ؟ کلثوم نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے اسے نہیں پہچانا۔ زینب نے فرمایا یہ ہماری کنیر ہند بنت عبد اللہ ہے جو ہمارے گھر میں کام کاج کرتی تھی۔ زینب کی بات سن کر ام کلثوم نے اپنا سرے نیچے کر لیا اور اسی طرح زینب نے بھی اپنا سر نیچے کر لیا تا کہ ہند ان کی طرف متوجہ نہ ہو، لیکن ہند ان دونوں بیبیوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر پوچھا آپ نے آپس میں کیا گفتگو کر کے پر اسرار طور پر اور خاص انداز میں اپنے سر جھکا لیے ہیں کیا کوئی خاص بات ہے ؟ زینب نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش کھڑی رہیں ہند نے پھر پوچھا بہن آپ کس علاقے سے ہیں ؟

اب زینب خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا ، ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں، ہند نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو اپنی کرسی چھوڑ دی اور احترام سے کھڑی ہو گئی اور پوچھنے لگی بہن کیا آپ مدینے والوں کو جانتی ہیں ؟ زینب نے فرمایا ، آپ کن مدینہ والوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی ہیں۔ ہند نے کہا ، میں اپنے آقا امام علی کے گھرانے کے متعلق پوچھنا چاہتی ہوں ، علی کے گھرانے کا نام لے کر ہند کی آنکھوں سے محبت کے آنسوں جاری ہو گئے اور خود کہنے لگی میں اس گھرانے کی خادمہ تھی اور وہاں کام کیا کرتی تھی مجھے اس گھرانے سے بہت محبت ہے۔ زینب نے پوچھا تو اس گھرانے کے کن افراد کو جانتی ہے اور کن کے متعلق دریافت کرنا چاہتی ہے ؟ ہند نے کہا کہ امام علی کی اولاد کا حال معلوم کرنا چاہتی ہوں، میں آقا حسین (ع) اور اولاد حسین (ع) اور علی (ع) کی پاکباز بیٹیوں کا حال معلوم کرنا چاہتی ہوں، خاص طور پر میں اپنی آقا زادیوں زینب و کلثوم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہوں اور اسی طرح فاطمہ زہرا کی دوسری اولاد کے متعلق معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ زینب نے ہند کی بات سن کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ جواب دیا ، تو نے جو کچھ پوچھا ہے، میں تفصیل سے تجھے بتاتی ہوں، تو نے علی (ع) کے گھر کے متعلق پوچھا ہے تو ہم اس گھر کو خالی چھوڑ کر آئے تھے ، تو حسین (ع) کے متعلق دریافت کرتی ہے تو یہ دیکھو تمہارے آقا حسین (ع) کا سر تمہارے شوہر یزید کے سامنے رکھا ہے۔ تو نے اولاد علی علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا ہے۔ تو ہم ابو الفضل العباس سمیت سب جوانوں کو کربلا کے ریگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے ہیں۔ تو نے اولاد حسین (ع) کے متعلق پوچھا ہے تو ان کے سب جوان مارے گئے ہیں۔ صرف ایک علی ابن الحسین (ع) باقی ہیں جو تیرے سامنے ہیں اور بیماری کی وجہ سے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے اور جو تو نے زینب کے متعلق دریافت کیا ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر سن کہ میں زینب ہوں اور یہ میری بہن ام کلثوم ہے۔ زینب کا درد ناک جواب سن کر ہند کی چیخ نکل گئی اور منہ پیٹ کر کہنے لگی ہائے میری آقا زادی یہ کیا ہو گیا ہے ہائے میرے مولا کا حال کیسا ہے، ہائے میرے مظلوم آقا حسین کاش میں اس سے پہلے اندھی ہو جاتی اور فاطمہ کی بیٹیوں کو اس حال میں نہ دیکھتی ، روتے روتے ہند بے قابو ہو گئی اور ایک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بدن خون خون ہو گیا اور وہ گریہ کر کے بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش میں آئی تو زینب اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگیں اے ہند تم کھڑی ہو جاؤ اور اب اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ تمہارا شوہر یزید ، بڑا ظالم شخص ہے ممکن ہے تمہیں اذیت و آزار پہنچائے۔ ہم اپنی مصیبت کا وقت گزار لیں گے ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے تمہارا سکون تباہ ہو جائے۔ ہند نے جواب دیا کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسین سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے، میری زندگی کا سکون ختم ہو چکا ہے اور اب میں اپنی زندگی کے باقی لمحات اسی طرح روتے ہوئے گزاروں گی اور اے میری آقا زادیوں میں آپ سے درخواست کرتی ہوں آپ سب میرے گھر آئیں ورنہ میں بھی آپ کے ساتھ یہیں بیٹھی رہوں گی اور قطعاً اپنے گھر نہیں جاؤں گی۔ یہ کہہ کر ہند اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی چادر اتار کر منہ پیٹتی ہوئی سر برہنہ یزید کے پاس آ گئی۔ یزید اس وقت سات سو کرسی نشین بیرون ملک کے سفیروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اپنی تعریف میں محو تھا ہند نے یزید سے کہا:

اے یزید کیا تو نے حکم دیا ہے کہ میرے آقا زادے حسین (ع) کا سر نوک نیزہ پر بلند کر کے دروازے پر لٹکایا جائے، نواسہ رسول کا سر میرے گھر کے دروازے پر ، یزید نے اپنی زوجہ کو اس حالت میں دیکھا تو فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور بھرے دربار میں اسے سربرہنہ دیکھ کر برداشت نہ کر سکا اسے چادر پنہائی اور کہنے لگا ہاں یہ حکم میں نے دیا ہے، اب تو نواسہ رسول پر گریہ و ماتم کرنا چاہتی ہے۔ تو بے شک کر لے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن زیاد نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے حسین کو قتل کر ڈالا ہے۔ جب یزید نے یہ چاپلوسی و مکر فریب سے بھرے ہوئے جملے کہہ چکا تو اس وقت اس نے ہند کو چادر اوڑھائی تو ہند نے کہا : اے یزید خدا تجھے تباہ و برباد کرے اپنی زوجہ کو بھرے مجمع میں سربرہنہ دیکھ کر تیری غیرت جاگ اٹھی ہے، مگر تو رسول زادیوں کو کھلے عام سربرہنہ کر کے بازاروں اور درباروں میں لایا ہے اور ان کی چادریں چھین کر انھیں نا محرموں کے سامنے لاتے وقت تیری غیرت کہاں گئی تھی وائے ہو اے یزید۔

قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: