بادشاہِ روم کے نمائندے کا امام حسین(ع) کے سر کو سینے سے لگانا اور یزید کا اسے قتل کرنا

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس کے یزید کے پاس آنے کے بعد یزید ہر روز شراب نوشی کی محفل منعقد کرتا اور سر اقدس کو اپنے سامنے رکھ کر شراب پیتا-

ایک دن بادشاہِ روم کا نمائندہ اس کا پیغام لے کر (جو کہ روم کے اشراف اور عظماء میں سے تھا) یزید کی اسی محفل میں حاضر ہوا۔ اس نے یزید سے پوچھا :اے عرب کے بادشاہ! یہ سر کس کا ہے؟ یزید نے جواب دیا کہ تم کیوں یہ پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا :جب میں بادشاہ کے پاس واپس جاؤں گا تو جو کچھ میں نے یہاں دیکھا ہے اس کے بارے میں وہ مجھ سے پوچھے گا، اور یہ کتنا اچھا ہو گا کہ میں اس سر اور جس کا یہ سر ہے کے بارے میں بیان کروں تاکہ وہ تمھاری خوشیوں میں شریک ہو۔ یزید نے جواب دیا کہ یہ سر حسین ابن علی بن ابو طالب(ع) کا ہے - رومی پوچھنے لگا کہ اس کی ماں کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا: فاطمہ بنت محمد مصطفی(ع)۔
عیسائی مذہب کے ماننے والے اس نمائندے نے کہا: جب میں اس سر کی طرف دیکھتا ہوں تو میرے رونٹے کھڑے ہو جاتے ہیں میں اسے تمھاری کتاب کی آیات پڑھتے ہوئے سنتا ہوں، واۓ ہو تم پر اور تمہارے دین پر، میرا دن تمہارے دین سے بہتر ہے، کیونکہ میرا باپ حضرت داؤد(ع) کی نسل سے ہے میرے اور ان کے درمیان بہت پشتوں کا فاصلہ ہے- پھر بھی تمام عیسائی میری تعظیم کرتے ہیں اور میرے پاؤں کی خاک کو تبرک کے طور پر اٹھا لیتے ہیں، اور تم اپنے نبی کے نواسے کو قتل کرتے ہوئے کہ جس کے درمیان اور تمہارے پیغمبر کے درمیان صرف ایک ماں کا فاصلہ ہے- تمھارا یہ کیسا دین ہے؟ گویا کہ تم نے اپنے نبی کی نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی تم اپنے نبی پر ایمان ہی نہیں لائے اسی وجہ سے تم نے یہ ظلم کیا ہے۔

یزید اس کی باتیں سن کر غصے میں آ گیا اور اس نے حکم دیا کہ اس عیسائی کو قتل کر دو اور تاکہ یہ اپنے ملک میں جا کر ہمیں بدنام نہ کرے -
سفیر جب اپنے قتل ہونے سے باخبر ہوا تو اس نے یزید سے کہا کہ کیا تو مجھے قتل کر دے گا؟ یزید نے کہا ... ہاں !
تو عیسائی نے کہا :تو جان لے کہ کل رات میں نے تمھارے پیغمبر کو خواب میں دیکھا ہے، وہ مجھ سے فرما رہے تھے کہ اے عیسائی! تو اہل بہشت میں سے ہے- میں اس بشارت پر متعجب تھا۔

اس کے بعد اس نے امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس کو اٹھایا اور اپنے سینے سے لگایا اور اس کے بوسے لیتا ہوا روتا رہا، پھر اس نے پکار کر کہا: السلام عليك يا أبا عبد الله الحسين ورحمة الله وبركاته، اپنے رب، اپنے نانا، اپنی والدہ اور اپنے بھائی کے سامنے میری گواہی دینا: أشهد أنّ محمّداً رسولُ الله، وأنّ عليّاً وليُّ الله.

اس کے بعد اس کو شہید کر دیا گیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: