اسیران کربلا کی شام سے رہائی اور اس کے بعض اسباب

یزید ملعون کا امام حسین(ع) کے قتل کا حکم دینا اور پھر اس پر خوشی اور جشن منانا، خاندان رسول(ص) کی خواتین کو قیدی بنا کر کوفہ وشام کے بازاروں اور درباروں میں پھرانا اور نمائش کرنا، امام حسین(ع) کے سر اقدس اور خانوادہ عصمت کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنا، جوش مسرت اورظاہری فتح ونصرت سے چور چور ہو کر کفریہ اشعار پڑھنا تاریخ اسلام کے وہ مسلمہ واقعات ہیں، جن کا نہ تو کسی سے انکار ممکن ہے اور نہ ہی کسی یزید نواز فرد یا گروہ کے پردہ ڈالنے سے ان پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے۔

علامہ سعد الدین تفتازانی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ حق یہ ہے کہ یزید کا امام حسینؑ کے قتل پرراضی اور خوش وخرم ہونا اس کا اہل بیت رسول کی اہانت کرنا اس پر تواتر معنوی موجود ہے اگرچہ ان واقعات کی تفاصیل بطریق احاد مروی ہیں، بنا بر ایں ہم اسے خارج از اسلام قرار دینے میں ذرہ بھر توقف نہیں کرتے، خدا اس پر اور اس کے اعوان و انصار پر لعنت کرے۔ (شرح العقائد النسفية )۔

امام حسین(ع) شہید کرنے کے بعد خاندان رسول کی اس طرح تذلیل و توہین کر کے یزید اس خانوادہ کے اثرورسوخ کو ختم کرکے اہل عالم پراپنی دھاک بٹھانا چاہتا تھا اور اپنے اقتدار مضبوط بنانا چاہتا تھا۔ لیکن حالات نے بہت جلد یزید پر اس کے خیال کے غلط ہونے کو واضح و آشکار کر دیا۔ کربلا کی شیردل خاتون نے اپنے غیرفانی خطبوں کے ذریعہ سے یزید کے ظلم و ستم کو طشت ازبام کر کے اس کے ایوان اقتدارکے ستونوں کو صرف ہلایا ہی نہیں بلکہ بلکل کھوکھلا کردیا۔ چنانچہ ہر طرف حتیٰ کہ یزيد کے اپنے افراد خانہ کی طرف سے بھی اس کی لعنت و ملامت ہونے لگی، ملک میں انقلاب کے آثار نمودار ہونے لگے۔ خانہ جنگی کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا۔ یزید کو ان بدلتے ہوئے حالات کی سنگینی کا پورا پورا احساس ہو گیا تھا اس لئے ان حالات میں اس نے اپنی اوراپنی سلطنت کی حفاظت و بقا اس امر میں دیکھی کہ شہادت حسینؑ کی ذمہ داری ابن زیاد پر ڈال کر اس سے اپنی برآت وبیزاری کا اظہارکرے اور اسیران آلؑ رسولؐ کی جلد رہائی کے احکام جاری کرے، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔

مذکورہ بالا مسلمہ تاریخی حقائق کی تائید علامہ جلال الدین سیوطی اور مؤرخ ابن اثیر جزری کے حقیقت افروز بیانات سے بھی ہوتی ہے جو اکثر و بیشترخود یزید کے بیانات سے ماخوذ ہیں۔ اول الذکر لکھتے ہیں جب امام حسینؑ اور ان کے بھائی (اوردیگراعزاوانصار) شہید ہو گئے اور ابن زیاد نے ان کے سر یزید کے پاس بھیج دیئے تو وہ پہلے ان کے قتل سے بہت خوش ہوا پھر جب لوگوں نے اس کے فعل شنیع کی وجہ سے اسے برا سمجھنا شروع کیا اور ان کو اس کا حق بھی تھا کہ اسے برا سمجھیں تب اس نے دکھاوے کے لیے ندامت کا اظہار کیا۔

ثانی الذکر رقمطراز ہے کہ جب امام حسینؑ کا سر مبارک یزید کے پاس پہنچا تو اس کی نظر میں ابن زیاد کی وقعت اور بڑھ گئی اور جو کچھ اس نے کیا تھا اس نے یزید کو مسرور وشاد کیا۔ چنانچہ اس نے اس کو انعام واکرام سے بھی نوازا۔ لیکن ابھی بہت ہی تھوڑا وقت گزرا تھا کہ یزید کو یہ اطلاعات ملنے لگیں کہ لوگ اس کو برا سمجھنے لگے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اس کو لعن طعن اور سب و شتم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لئے اب اس نے شہادت امام حسینؑ پر اپنی ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میرا کیا نقصان ہوتا اگر میں اذیت برداشت کر لیتا اورحسینؑ کو یہاں اپنے پاس اپنے گھر میں رکھ لیتا اور وہ جو کچھ چاہتے ان کو کرنے دیتا، اگرچہ اس سے میرے اقتدار میں کمزوری پیدا ہو جاتی لیکن حق رسولؐ اور ان کی قرابتداری کی حفاظت و رعایت تو ہو جاتی۔ خدا لعنت کرے ابن مرجانہ پر جس نے ان کو مجبور کر کے قتل کر دیا حالانکہ حسینؑ نے اس سے کہا تھا کہ مجھ سے آکر صلح کی گفتگو کرلیں یاکسی سرحد کی طرف نکل جائیں مگراس نے ان کی بات نہ مانی اس طرح ان کو قتل کرکےمجھے مسلمانوں کی نگاہوں میں مبغوض بنادیا اورمیرے خلاف دلوں میں دشمنی کا بیج بوکرمجھےہرنیک وبد کی نظر میں برابنا دیا مجھ سے ابن مرجانہ کو کیا کد تھی؟ خدا اس پر لعنت کرے اوراسے قتل کرے۔ ( کامل ابن اثیر ج3۔

یہ تھے وہ بعض اسباب تھے جنھوں نے یزید کو اسیران کربلا کو جلد از جلد رہا کرنے پرمجبور کردیا۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب امام علی بن حسین علیہ السلام اپنے باقی ماندہ خانوادے کو لے کر یزید کے بھیجے گئے نعمان بن بشیر اور اس کے ساتھیوں کے ہمراہ شام سے نکلے تو انھیں امام حسین(ع) اور ان کے انصار کے سر بھی دے دیے گئے۔ جب یہ قافلہ عراق پہنچا تو امام سجاد(ع) نے نعمان بن بشیر سے کہا: ہمیں کربلا لے چلو۔ جب وہ سروں کو ان کے اجساد کے ساتھ دفن کرنے کے لیے کربلا پہنچے تو انھوں نے جابر بن عبد اللہ کو بھی امام حسین(ع) کی قبر کے پاس پایا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: