20 صفر: شام سے رہائی کے بعد اربعین امام حسین(ع) کے دن آل محمد کی کربلا آمد

برہم ہے جہاں عجب تلاطم ہے آج

سب روتے ہیں دنیا میں خوشی گم ہے آج

چالیسویں تک گڑا نہ (پورا) لاشہ جس کا

اس بیکس و مظلوم کا چہلم ہے آج

تاریخی کتابوں میں مذکور ہے کہ شام سے رہائی کے بعد آل محمد کا قافلہ مدینہ کی طرف جاتے ہوئے جب اُس دو راہے پر پہنچا جہاں سے ایک راستہ عراق کی طرف اور دوسرا حجاز کی جانب جاتا تھا تو وہاں حضرت سید سجاد علیہ السلام اور مستورات مخدارات عصمت و طہارت نے ساربان سے کہا کہ ہمیں کربلا کی طرف لے چلو۔

بیس صفر کو (اربعین کے دن) یہ قافلہ کربلا پہنچا جہاں انھوں نے امام حسین(ع) کی قبر اقدس اور ان کے اہل بیت و اصحاب کی قبروں کی زیارت کی اور مسلسل کئی دن تک وہاں ماتم اور عزاداری کرتے رہے۔

عطیہ عوفی کہتا ہے کہ میں جناب جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ امام حسین(ع) کی قبر اقدس کی زیارت کے لیے نکلا، جب ہم کربلا پہنچے تو جابر دریائے فرات کے کنارے کے قریب گئے اور وہاں غسل کر کے لباس بدلا، پھر ایک تھیلی کھولی جس میں صعد (ایک قسم کی خوشبو) تھی جسے انھوں نے اپنے جسم پر چھڑکا، پھر ہر قدم پر ذکر خدا کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے یہاں تک جب وہ امام حسین(ع) کی قبر اقدس قریب پہنچے تو کہا: میرا ہاتھ قبر پر رکھو جونہی میں نے ان کا ہاتھ قبر پر پھیرا تو وہ قبر پر بےہوش ہو کر گر گئے، میں ان پر تھوڑا سا پانی چھڑکا، جب انھیں ہوش آیا تو انھوں نے تین مرتبہ یا حسین کہا اور پھر یا حسین یا حسین یا حسین کی صدا بلند کرنے کے بعد جناب جابر نے کہا: آہ دوست اپنے دوست کو جواب نہیں دیتا اور کیونکر جواب دے کہ رگ گلو کٹ چکی ہیں خون بہہ گیا ہے، سر تن سے جدا ہو چکا ہے، پھر کہا: أشهد أنّك ابن خاتم النبيّين، وابن سيّد المؤمنين، وابن حليف التقوى، وسليل الهدى، وخامس أصحاب الكسا، وابن سيّد النقبا، وابن فاطمة سيّدة النساء. وما لك لا تكون هكذا، وقد غذّتك كفّ سيّد المرسلين، ورُبّيت في حجر المتّقين، ورضعت من ثدي الإيمان، وفُطمت بالإسلام؛ فطبت حيّاً وطبت ميّتاً. غير أنّ قلوب المؤمنين غير طيّبةٍ بفراقك، ولا شاكّة في حياتك. فعليك سلام الله ورضوانه. وأشهد أنّك مضيت على ما مضى عليه أخوك يحيى بن زكريا.

پھر شہداء کربلا کی قبروں کی طرف رخ کر کے کہا: السلام عليكم أيّتها الأرواح التي حلّت بفناء الحسين(عليه ‌السلام) وأناخت برحله. أشهد أنّكم أقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة، وأمرتم بالمعروف ونهيتم عن المنكر، وجاهدتم الملحدين، وعبدتم الله حتّى أتاكم اليقين.

شہداء کربلا کی زیارت کے آخر میں یہ جملے ادا کیے: والذي بعث محمّداً بالحقّ نبيّاً، لقد شاركناكم فيما دخلتم فيه. یعنی: قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے ہم بھی آپ کے ساتھ اس معرکہ میں شریک ہوئے جس میں آپ داخل ہوئے۔

یہ سن کر عطیہ نے کہا: ہم کس طرح ان کے عمل میں شریک ہوئے جب کہ ہم نشیب و فراز اور ان ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوئے جبکہ انہوں نے سر تو کٹائے، ان کی عورتیں بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے۔ جابر نے کہا کہ میں نے خود جناب حبیب خدا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے سنا ہے: . جو کسی قوم کو پسند کرتا ہے اسی قوم کے ساتھ محشور ہوتا ہے اور جو کسی قوم کا عمل پسند کرتا ہے وہ اس عمل مین ان شریک ہوتا ہے۔ مجھے اس خدا کی قسم جس نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا: میں اور میرے ساتھی اس نیت و عقیدہ پر ہیں جس پر جناب سید اشہدا اور ان کے اصحاب تھے۔

عطیہ کہتا ہے کہ ہم یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ شام کی طرف سے ایک سیاہی نمودار ہوئی، میں جابر سے کہا: یہ سیاہی شام کی طرف سے نمودار ہوئی ہے۔ جابر نے اپنے غلام سے کہا: اس سیاہی کی طرف جاؤ اور مجھے اس کے بارے میں دیکھ کر خبر دو، اگر تو یہ عمر بن سعد کے ساتھی ہیں تو میرے پاس واپس آ جانا شاید ہمیں کوئی پناہ گاہ مل ہی جائے،اور اگر وہ امام زین العابدین(ع) ہیں تو اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہو۔

عطیہ کہتا ہے کہ وہ غلام گیا اور تیزی سے واپس آ کر اس نے کہا: اے جابر اٹھو اور رسول اللہ(ص) کے حرم کا استقبال کرو۔ وہاں امام زین العابدین(ع) اپنی پھوپھیوں اور بہنوں کے ساتھ آئے ہیں۔ جابر فورا کھڑا ہوا اور ننگے پاؤں اور ننگے سر چل کر امام زین العبادین(ع) کے پاس پہنچا۔ امام(ع) نے دیکھ کر کہا: آپ جابر؟ تو انھوں نے کہا: ہاں اے فرزندِ رسول میں جابر ہی ہوں۔ پھر امام(ع) نے فرمایا: يا جابر، ههنا والله قُتلتْ رجالنا، وذُبحت أطفالنا، وسُبيت نساؤنا، وحُرّقت خيامنا.

اے جابر یہیں خدا کی قسم ہمارے آدمی قتل کیے گئے، یہیں ہمارے بچوں کو ذبح کیا گیا، یہیں ہماری خواتین کو قیدی بنایا گیا، یہیں ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی۔

قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: