28صفر: رسول خدا(ص) کی وفات پہ روضہ مبارک حضرت عباس(ع) تمام مسلمانوں کو تعزیت پیش کرتا ہے

28 صفر کا دن پوری دنیا کے لیے غم و حزن کی یادوں سے وابستہ ہے کیونکہ پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر آنے والے رسول حضرت محمد(ص) نے اسی دن ہمیشہ کے لیے اس ظاہری دنیا کو خیر باد کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے تمام خدام اور الکفیل انٹر نیشنل نیٹ ورک کے ارکان امام زمانہ(عج)، مراجع عظام اور تمام مسلمانوں کو رسول خدا(ص) کی وفات پہ پرسہ پیش کرتے ہیں۔
نبی کریم(ص) کی زندگی پہ ایک نظر
نام مبارک: محمد (ص)
والدِ گرامی: جناب عبد اللہ بن عبد المطلب
والدہ ماجدہ: جناب آمنہ بنت وہب
آنحضرت(ص) کےچچا: حضرت محمد(ص) کے نو چچا تھے کہ جن کے نام یہ ہیں:
1: حارث/ 2:زبیر/ 3:ابو طالب کہ جن کا اصل نام عبد مناف ہے/ 4: حمزہ/ 5: غیداق/ 6: ضرار/
7: مقوم/ 8: ابو لہب کہ جس کا اصل نام عبد العزی ہے/ 9: عباس
جناب ابو طالب(ع)کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب چچا جناب عبد اللہ کے صرف والد کی طرف سے بھائی ہیں جبکہ جناب ابوطالب(ع) والد اور والدہ دونوں کی طرف سے ہی جناب عبد اللہ(ع) کے سگے بھائی ہیں۔
پھوپھیاں: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چھ پھوپھیاں تھیں کہ جن کے نام یہ ہیں:
1: امیمہ/ 2: ام حکیم/ 3: برہ/ 4: عاتکہ/ 5: صفیہ/ 6:ارویٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ ماجدہ جناب آمنہ بنت وہب اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں لہٰذا حضور(ص) کا کوئی ماموں اور خالہ بھی نہیں ہے اور اسی طرح آنحضرت(ص) بھی اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے لہٰذا حضور(ص) کا کوئی بھائی اور بہن بھی نہیں ہے ۔
آنحضرت(ص) کے چچا زاد بھائی: چار کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی بھی چچا کی اولاد نہ تھی رسالت مآب(ص) کے جو چچا صاحبِ اولاد تھے ان کے نام یہ ہیں:حارث، ابوطالب، عباس اور ابو لہب۔
جناب ابوطالب(ع) کے چار بیٹے تھے : 1: طالب/ 2: عقیل/ 3:جعفر/ 4:علی
حارث کے پانچ بیٹے تھے: 1:ابو سفیان/ 2:مغیرہ/ 3:نوفل/4: ربیعہ/5:عبد شمس۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبد شمس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا تھا۔
عباس کے نو بیٹے تھے : 1:عبد اللہ/ 2:عبید اللہ/ 3:فضل/ 4:قثم/ 5:معبد/ 6:عبد الرحمن /7:تمیم /8:کثیر/ 9:حارث
ابو لہب کے چار بیٹے تھے: 1:عتیبہ/ 2:معتب/3:عتبہ/4: عقبہ۔ ابولہب کے ان چاروں بیٹوں کی ماں ابو سفیان کی بہن ام جمیل ہے۔
گزشتہ سطور سے واضح ہو جاتا ہے رسالت مآب حضرت محمد صلی علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائیوں کی تعداد22 تھی۔
رسول خدا صلی علیہ و آلہ وسلم کے ابدی دشمن ابو سفیان کا نسب عبد مناف سے ملتا ہے کہ جو آنحضرت صلی علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبد المطلب کے دادا ہیں اور اسی طرح سے ابو سفیان کے دادا کے بھی دادا ہیں۔
حضور اکرم صلی علیہ و آلہ وسلم کا شجرہ نسب عبد مناف تک یوں ہے محمد(ص) بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
جبکہ ابو سفیان کا نسب نامہ یوں ہے ابو سفیان (صخر) بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
ولادت باسعادت : حضرت محمد مصطفی صلی علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت اپنے والد کی وفات کے بعد عام الفیل والے سال جمعہ سترہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔آنحضرت صلی علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے وقت ایران میں نوشیروان بادشاہ حکومت کرتا تھا کہ جو اپنے عدل و انصاف میں کافی مشہور تھا۔
اہل سنت کے اکثر علماء لکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول کو ہوئی اور ہمارے بعض شیعہ علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ البتہ شیعہ علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ رسالت مآب حضرت محمد صلی علیہ و آلہ وسلم 17 ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے۔
حضور اکرم حضرت محمد صلی علیہ و آلہ وسلم نے 63 سال اس دنیا میں گزارے، آنحضرت(ص) کی اس تریسٹھ سالہ زندگی میں سے6 سال اپنی والدہ کے ساتھ گزرے،8 سال اپنے دادا جناب عبد المطلب کے ساتھ گزرےاور 42سال آپ(ص) اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ رہے، ان 42 سالوں میں سے آنحضرت صلی علیہ و آلہ وسلم نے 17 سال جناب ابوطالب علیہ السلام کے گھر میں گزارے اور 25 سال اپنی پہلی زوجہ جناب خدیجہ(ع)کے گھر میں رہے۔ جناب ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے بعد آنحضرت(ص) 3 سال تک مکہ میں رہے اور 10 سال مدینہ میں بسر کیے اور مدینہ میں ہی آنحضرت(ص) نے اس دنیا کو خیر باد کیا۔
حضرت محمد(ص) 40 سال کی عمر میں ستائیس27 رجب کو مبعوث با رسالت ہوئے۔
آنحضرت(ص) کی زوجات: رسول خدا حضرت محمد صلی علیہ و آلہ وسلم نے جن خواتین سے شادی کی ان کے نام یہ ہے:
جناب خدیجہ، جناب عائشہ، جناب حفصہ، جناب ام سلمہ، جناب ام حبیبہ، جناب زینب بن جحش، جناب میمونہ، جناب صفیہ، جناب جویریہ، جناب سودۃ۔ یہ وہ خواتین ہیں کہ جنہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ کی حیثیت اختیار کی۔
رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب زینب بنت خزیمہ سے بھی شادی کی کہ جو آنحضرت(ص) سے پہلے وفات پا گئیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 25سال کی عمر میں جناب خدیجہ(ع)سے شادی کی۔ شادی کے وقت جناب خدیجہ علیہا السلام کی عمر40 سال تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب خدیجہ علیہا السلام کی زندگی میں دوسری کسی بھی خاتون سے شادی نہ کی اور ان کی وفات کے بعد بھی ایک سال تک بغیر شادی کے ہی رہے۔
رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس زوجات کے علاوہ کچھ کنیزیں بھی تھیں کہ جن کے نام یہ ہیں:
جناب ماریہ قبطیہ کہ جن کے بطن سے رسول خدا(ص) کے بیٹے جناب ابراہیم کی ولادت ہوئی، جناب میمونہ بنت سعد، جناب امیمہ، جناب ریحانہ بنت زید کہ جن کا تعلق بنی نضیر سے تھا۔
آنحضرت(ص) کی اولاد: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی کہ جن کے نام یہ ہیں:
جناب قاسم، جناب عبداللہ کہ جن کی والدہ جناب خدیجہ ہیں لیکن یہ دونوں بیٹے کم سنی میں ہی فوت ہو گئے۔
تیسرے بیٹے جناب ابراہیم ہیں کہ جن کی والدہ جناب ماریہ قبطیہ ہیں لیکن تیسرے بیٹے کا بھی بچپن میں ہی انتقال ہو گیا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کا نام جناب فاطمہ(ع) ہے کہ جن کی والدہ جناب خدیجہ(ع)ہیں۔
جنگیں: جب بھی رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر ملتی کہ کوئی دشمن مسلمانوں پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پہلے تیس یا ساٹھ یا اس سے کم یا زیادہ گھوڑ سواروں کو دشمن کے لشکر اور جنگی تیاریوں کے بارے میں معلومات لینے کے لیے روانہ کرتے یہ افراد اپنا خفیہ مشن مکمل کر کے تمام خبریں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچاتے اور احکامات کے مطابق نئے مشن پہ روانہ ہو جاتے۔ بعض دفعہ معلومات کے حصول کے لیے روانہ کیے گئے افراد اور دشمن کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپ بھی ہو جاتی۔
کبھی تو رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود لشکر کی قیادت کرتے اور کبھی اپنے کسی صحابی کو اسلامی فوج کا سالار بنا کر جنگ کے لیے روانہ کرتے اور خود مدینہ میں ہی رہتے کہ جیسے جنگ مؤتہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کیا تھا۔
مسلمانوں کے لشکر کی بعض دفعہ دشمنوں سے باقاعدہ جنگ ہوتی اور بعض اوقات بغیر جنگ کے ہی لشکر واپس مدینہ آجاتا اور یہ سب امور حالات اور مقتضیات کے مطابق طے پاتے اور وقوع پذیر ہوتے۔
رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں اسلامی لشکر کو 62 مرتبہ جنگی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں سے 36 مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لشکر کے ساتھ نہیں تھے اور26 مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لشکر کے ساتھ تھے۔
کل نو جنگوں میں رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں باقاعدہ طور پر اسلامی لشکرنے جنگ یا لشکر کشی کی کہ جو یہ ہیں:
1: جنگ بدر/ 2: جنگ احد/ 3: جنگ خندق/ 4: جنگ بنو قریضہ/ 5: جنگ مصطلق/ 6: جنگ خیبر/ 7: فتح مکہ/ 8: جنگ حنین/ 8:جنگ طائف
حضرت محمد(ص)کے بادشاہوں کو لکھے خطوط: رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے زمانے کے متعدد بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطوط لکھے جن میں سے بعض کے احوال درج ذیل ہیں:
جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط ملا تو وہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا اس نے خط کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور خط کے احترام میں تخت سے نیچے اتر کر کھڑا ہو گیا اور اسلام قبول کر لیا۔
روم کے بادشاہ کو جب رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط ملا تو اسے خط پڑھنے کے بعد یقین ہو گیا کہ حضرت محمد(ص) اللہ کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہیں اور اس نے مسلمان ہو جانے کا ارادہ بھی کیا لیکن اس نے اپنی حکومت کے چھن جانے کے ڈر سے اسلام لانے کا اعلان و اظہار نہ کیا۔
ایران کے بادشاہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط پھاڑ دیا اور آنحضرت(ص) کے نمائندے کو بھی توہین آمیز رویہ کے ساتھ ایران سے باہر نکال دیا۔ جس کے بعد اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور حکومت اس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
مصر میں واقع قبط کے بادشاہ مقوقس نے رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خط کا جواب لکھاکہ جس میں یہ بھی مذکور تھا: .... میں نے آپ(ص) کے قاصد کا اعزازواکرام کیا،آپ کی خدمت میں دو ایسی کنیزیں بھیج رہا ہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے، اور کپڑے بھیج رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر ہدیہ کر رہا ہوں....۔
مقوقس نے رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام تو کیا لیکن وہ اسلام نہ لایا۔ جو دو کنیزیں مقوقس نے بھیجی تھیں وہ جناب ماریہ اور سرین تھیں۔ آنحضرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ماریہ سے شادی کر لی اور سرین کو اپنے شاعر حسان بن ثابت انصاری کے سپرد کر دیا۔
آنحضرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کے حکمران حارث غسانی کو بھی خط لکھا کہ جو روم کے بادشاہ کے تابع فرمان تھا۔ حارث غسانی نے خط ملنے کے بعد ایک بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن روم کے بادشاہ نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔
آنحضرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خط موصول ہونے کے بعد یمامہ کے حکمران ہوذہ نے اسلام قبول کرنے کے لیے یہ شرط رکھی کہ اسے کسی جگہ کا حکمران بنا دیا جائے لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شرط کو تسلیم نہ کیا جس کے بعد وہ ہوذہ ساری زندگی اپنے کفر پر ہی باقی رہا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جلندی کے بیٹوں جیفر اور عبد کو بھی اسلام کی دعوت پر مشتمل خط لکھا کہ جسے پڑھنے کے بعد یہ دونوں مسلمان ہو گئے یہ دونوں بھائی یمن میں عمان کے حکمران تھے۔
بحرین کے حکمران منذر عبدی کو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خط لکھ کر اسلام کی دعوت دی جس پہ اس نے اسلام کو قبول کیا۔
غیب کی خبریں:حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت سے واقعات کے رونما ہونے کے بارے میں پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ جو اپنے مقررہ وقت پر بعینہ بالکل اسی طرح سے وقوع پذیر ہوئے جس طرح سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی تھی۔ اہل سنت اور شیعہ امامیہ کی کتابیں غیب کی اخبار پر مشتمل متواتر احادیث سے بھری پڑی ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مستقبل میں رونما ہونے والے جن واقعات کی خبر دی تھی ان میں حضرت عائشہ کے خروج اور اُن پر حوأب کے کتوں کے بھونکنے.... ، معاویہ کی قیادت میں باغی گروہ کے حضرت عمار بن یاسر کو شہید کرنے....، امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں شہید کیے جانے....، جناب حجر بن عدی کی شہادت....، جناب ابن عباس اور زید بن ارقم کے آخری عمر میں نابینا ہو جانے....، شعب ابی طالب میں قیام کے دوران قریش کے بنی ہاشم کے خلاف کعبہ میں لٹائے گئے معاہدے کو دیمک کے کھا جانے....، ایران کے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے....، حضرت علی علیہ السلام کی شہادت.... کے بارے میں پہلے سے دی گئی خبر بھی شامل ہے۔ حضور اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی فرمایا تھا کہ جب بنوابی العاص کے آدمیوں کی تعداد تیس ہو جائے گی تو وہ اللہ کے دین کو اپنی برائیاں چھپانے کا ذریعہ بنا لیں گے اور اللہ کے مال کو اپنی ملکیت شمار کریں گے...
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: