اور اسی مناسبت سے کچھ امام سجاد(ع) کا:
نام مبارک: علیj
مشہور لقب: زین العابدین اور سجاد
کنیت: ابو محمد
والد: حسین بن علی بن ابی طالبj
والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ جناب شہربانو بنت یزدجرد ابن شہریار ابن کسری ہیں ،یعنی آپ نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں۔
تاریخ و مقام ولادت: آئمہ اہل بیت میں سے چوتھے امام حضرت زین العابدین علی بن حسینjکی ولادت باسعادت ماہ شعبان 38 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔
اولاد: حضرت امام زین العابدینj کی اولاد کی تعداد 15ہےکہ جن میں سے 11بیٹے اور 4بیٹیاں ہیں۔
بیٹوں کے نام یہ ہیں:
(1): امام محمد باقرj۔ ان کی والدہ جناب فاطمہ بنت امام حسن ہیں۔
(2): حسن، (3): حسین اکبر، (4): حسین اصغر، (5): زید، (6): عمر، (7): عبداللہ، (8): سلیمان، (9): علی، (10): محمد اصغر، (11): عبدالرحمن
امام زین العابدین علیہ السلام کی بیٹیوں کے نام یہ ہیں:
(1): خدیجہ، (2): فاطمہ، (3): علیہ، (4): ام کلثوم
علم: امام زین العابدین علیہ السلام کا علم آل رسول کا علم ہے اور آل رسول کا علم ان کے جد امجد والا ہی علم ہے کہ جو بیٹے کو باپ سے باپ کو جد امجد سےاور جد امجد کو جبرائیل سے اور جبرائیل کو خدا سے ملا ہے۔
اہل سنت اور شیعہ علماء نے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت سے علوم، دعائیں، نصیحت بھری باتیں، تفسیر، حلال و حرام کے شرعی احکام اور مختلف واقعات وغیرہ کو نقل کیا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہونے والی احادیث یا کسی قول کو امام علیہ السلام نے کسی صحابی یا تابعی سے نقل نہیں کیا بلکہ ان سب چیزوں کا مصدر رسول خداo ہیں۔ تمام لوگ علوم میں اہل بیت کے محتاج ہیں اور اہل بیت کسی بھی شخص کے محتاج نہیں ہیں۔
شیخ ابو زہرۃنے اپنی کتاب الامام زید صفحہ 31 طبع اول میں لکھا ہے زید کی نشوونما اورپرورش امام زین العابدین علیہ السلام کے گھر میں ہوئی اور وہیں ان کے ذہن میں پسندیدہ افکار اور زندگی کی ناپسندیدہ اشیاء کے بارے میں خیالات اور دیگر رجحانات پروان چڑھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام فقیہ اور محدث تھے اور اپنے دادا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرح فقہی مسائل کی تمام جوانب اور فروعات پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔جب بھی امام زین العابدین علیہ السلام ایسے نوجوانوں کو دیکھتے کہ جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ انھیں قریب کر لیتے اور فرماتے خوش آمدید آپ لوگ علم کے امانت دار ہو، آج آپ لوگ اپنی قوم کے چھوٹے شمار ہوتے ہو لیکن عنقریب آپ قوموں کے بڑے بزرگ بن جاؤ گے۔ جب بھی کوئی طالب علم امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آتا تو امام علیہ السلام اسے خوش آمدید کہتے اور فرماتے کہ تم ہی رسول خدا کی وصیت کے مصداق ہو۔جب بھی کوئی طالب علم زمین پہ موجود کسی بھی خشک یا تر چیز پہ قدم رکھتا ہے تو زمین کے ساتوں طبقے اس کے لیے تسبیح بجا لاتے ہیں۔
کسی بھی شخص کا امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس علوم محمدیہ و علویہ ہونے کے بارے میں اختلاف موجود نہیں ہے اگر ظالم و جابر حکمران امام زین العابدین علیہ السلام کو نظر بندی اور جاسوسی جال کی قید میں نہ رکھتے تو یہ علوم ہر طرف پھیل جاتے اور کتابیں ان سے بھر جاتیں۔
عبادت اور اخلاق: جب نماز کا وقت آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور رنگ پیلا پڑ جاتا اور جسم کانپنے لگتا۔
امام زین العابدین علیہ السلام ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز ادا کرتےاور بہت زیادہ نمازیں پڑھنے کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتوں اعضاء سجدہ پہ گہرے نشان پڑ گئے۔
امام زین العابدین علیہ السلام نےایک اونٹنی پہ بیس مرتبہ حج کیا لیکن اسے کبھی ایک مرتبہ بھی چھڑی سے نہ مارا۔
امام زین العابدین علیہ السلام ہر اس شخص سے بھی نیکی اور بھلائی سے پیش آتے کہ جو انھیں اذیت دیتا۔ ہشام بن اسماعیل مدینہ کا گورنرتھا وہ جان بوجھ کر امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو اذیت پہنچاتا رہتا تھاجب ولید نے اسے معزول کیا تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ وہ راستے میں کھڑا ہو جائے تا کہ ہر شخص اس سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے ہشام اس حکم کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت ڈرا ہوا تھا لیکن امام سجادعلیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اصحاب کو اس سے سختی سے پیش نہ آنے کی نصیحت کی پھر امام زین العابدین علیہ السلام خود ہشام کے پاس گئے اور اس سے کہا تمہیں ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تمہیں جس چیز کی بھی ضرورت ہے ہم اسے پورا کریں گے۔
امام سجاد علیہ السلام کا ایک رشتہ دار ہمیشہ ان کا گلہ شکوہ کرتا رہتا تھا جب کہ امام علیہ السلام راتوں میں جا کر اسے اشیاءِ ضرورت اور دینار دیا کرتے تھے رات کے اندھیرے اور منہ کے چھپائے ہونے کی وجہ سے وہ اپنے محسن کو نہ پہچان پاتا اور کہتا کہ آپ کتنے اچھے انسان ہیں لیکن علی بن حسینj مجھ تک کوئی چیز نہیں پہنچاتا خدا اسے جزاء خیر نہ دے، امام علیہ السلام اس کی یہ باتیں سنتے اور اس کے لیے طلب مغفرت کرتے۔ جب امام سجاد علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس تک اشیاءِ ضرورت اور دیناروں کے پہنچنے کا سلسلہ بند ہوا تو اسے اس وقت معلوم ہوا کہ جو شخص ہر رات میری احوال پرسی کرتا اور مجھے میری ضروریات فراہم کرتا تھا وہ امام زین العابدین علیہ السلام ہی تھے۔
جو بھی شخص امام زین العابدین علیہ السلام کو برا بھلا کہتا تو امام اس کے جواب میں فرماتے اگر میں ویسا ہی ہوں جیسے تم نے کہا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے اور اگر میں ویسا نہیں ہوں جیسا تم نے کہا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔
واقعہ حرۃ سے پہلے جب اہل مدینہ نے بنی امیہ کے لوگوں کو مدینہ سے باہر نکال دیا تو مروان بن حکم نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے اپنے اہل و عیال کو کسی کے ہاں ٹھہرانا چاہا لیکن سب اہل مدینہ نے اس کے اہل و عیال کو اپنے گھر میں ٹھہرانے سے انکار کر دیا پھر وہ سب سے مایوس ہو کر اپنے اسی مقصد کے تحت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آیا تو امام علیہ السلام نے اسے خوش آمدید کہا اور اس کے اہل و عیال کو اپنے ہاں پناہ دی اور ان کی دیکھ بھال اپنے گھر والوں سے بھی بڑھ کر کی۔ واقعہ حرۃ کے دوران امام زین العابدین علیہ السلام نے چار سو خواتین کو اپنے ہاں پناہ دی اور ان کی مکمل حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ادا کی۔
امام زین العابدین علیہ السلام مدینہ کے بہت سے گھرانوں کی ضروریاتِ زندگی اس طرح سے پوری کرتے کہ انھیں امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت سے پہلے یہ معلوم ہی نہ ہو پایا کہ جو شخص ہمیشہ ان کی ضروریات پوری کرتا ہے وہ امام زین العابدین علیہ السلام ہیں۔
امام زین العابدین علیہ السلام اپنا چہرہ چھپا کررات کے اندھیرے میں درہم و دینار کی پوٹلیوں سے بھری بوری اپنی پشت پہ لاد کر نکلتے اور اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے اور اسی طرح وہ رات کے اندھیرے میں لکڑیوں اور کھانے پینے کی اشیاء کو اپنے پشت پہ لاد کر لوگوں کے گھروں کے دروازوں پہ چھوڑ کے آتے۔
جب امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد انھیں غسل دیا جا رہا تھا تو غسل دینے والوں نے ان کی پشت پر ان بوریوں کے نشانات دیکھے کہ جنہیں وہ بھر بھر کر فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
امام زین العابدین علیہ السلام غلاموں کو خریدتے حالانکہ انھیں ان غلاموں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی پھر اس کے بعد وہ انھیں اپنے ساتھ عرفات میں لے آتے اور مناسک کے ختم ہونے کے بعد ان غلاموں کو بہت زیادہ مال دے کر آزاد کر دیتے۔ اگر کسی غلام کو سال کی ابتدا میں یا سال کے دوران خریدتے تو اسے عید فطر کی رات آزاد کر دیتے اور کسی بھی غلام کو ایک سال تک اپنے پاس نہ رکھتے بلکہ اسے ایک سال سے پہلے پہلے آزاد کر دیتے۔
ہم امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں گفتگو کا اختتام الازھر یونیورسٹی کے معروف استاد شیخ ابو زہرۃ کی کتاب الامام زید سے اخذ کردہ مندرجہ ذیل اقتباس سے کرتے ہیں:
زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما امام حسین کی اولاد میں سے وہ بیٹے ہیں جو زندہ بچ گئے جبکہ ان کے باقی بھائی اس ظلم و ستم پر مشتمل معرکہ میں قتل کر دئیے گئے کہ جو یزید اور اس کے کارندوں نے حضرت فاطمہ زہراءh کے بیٹے امام حسینjپر مسلط کیا تھا۔ امام زین العابدینj نے اس معرکہ میں جنگ نہیں کی تھی کیونکہ وہ اس معرکہ کے دوران شدید بیمار تھے اور سانحہ کربلا کے وقت ان کی عمر23 سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی شاید اللہ تعالیٰ نے انھیں گناہ و ظلم کی تلواروں سے اس لئے محفوظ رکھا تا کہ امام حسینjکی نسل ان کے ذریعے سے باقی رہ سکےیزید کے کارندوں نے انھیں بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں ظالموں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا۔
علی بن حسین علیہ السلام ہمیشہ حزین و غمگین رہتے اور بہت زیادہ رویا کرتے تھے، لوگوں کے ساتھ رحم و کرم کے ساتھ پیش آتے اور بہت زیادہ جود و سخاوت کیا کرتے جب بھی انھیں اپنے چاہنے والوں میں سے کسی کے مقروض ہونے کا علم ہوتا تو وہ اس کا قرض ادا کر دیتے۔
ایک دفعہ امام زین العابدینj محمد بن اسامہ کے پاس گئے تو اسے روتا ہوا پایا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس سے پوچھا تم کیوں رو رہے ہو؟ تو اس نے کہا: میں مقروض ہو گیا ہوں۔ امام j نے فرمایا: کتنا قرض ہے؟ تو اس نے کہا: پندرہ ہزار دینار۔ تو امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: یہ قرض میں ادا کردوں گا۔
محمد بن اسحاق کہتا ہے کہ مدینہ میں لوگوں کی معیشت چل رہی تھی لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس معیشت کا مصدر کیا ہےاور کون انھیں ضروریات زندگی فراہم کررہا ہے؟ لیکن جب علی بن حسینj کی وفات ہوئی تو ان کو ضروریات زندگی کی فراہمی رک گئی جس کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ رات کے وقت جو شخص انھیں چیزیں لالا کر دیتا تھا وہ امام زین العابدین علیہ السلام ہی تھے۔
جب امام زین العابدین علیہ السلام کی وفات ہوئی تو ان کے کندھوں اور پشت پر بوریوں کے نشانات دیکھے گئے کہ جو ضرورت مندوں اور بیواؤں کے گھروں میں بوریوں میں سامان پہچانے کے سبب بنے تھے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام ہمیشہ رات کو صدقات اور خیرات لوگوں تک پہنچایا کرتے تھے وہ فرمایا کرتے تھے: رات کو دیا ہوا صدقہ خدا کے غضب کو ختم کرتا ہےاور دل اور قبر کو روشن کرتا ہےاور قیامت کے اندھیروں کو بندے سے دور کر دیتا ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کا رحم وکرم اور لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ صرف عطا اور سخاوت کے ذریعے نہیں تھا بلکہ امام زین العابدین علیہ السلام ہمیشہ لوگوں کے ساتھ چشم پوشی اور درگزری اختیار کرتے، جو بھی ان کی شان میں گستاخی کرتا یا ان پر ظلم کرتا چاہے وہ تعلق میں قریب ہوتا یا دور ہوتا اسے وہ معاف کر دیتے۔ ان کے در گزر کے بارے میں عجیب اور حیران کن واقعات تاریخی کتابوں میں مذکور ہیں۔
ایک دفعہ امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیز کوزے میں وضو کے لیے پانی لائی تو وہ کوزہ اس سے امام زین العابدین علیہ السلام کے چہرے پر گر گیا جس سے امام علیہ السلام کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا امام علیہ السلام نے اس کنیز کی طرف دیکھا تو اس کنیز نے قرآن کی یہ آیت پڑھنا شروع کر دی:
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔ {آل عمران/134}
یعنی:(ان متقین کے لیے)جو خواہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں ہر حال میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
اس کنیز نے کہا: وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ۔ یعنی:اور جو غصے کو پی جاتے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: كتمت غيظي۔ یعنی:میں نے اپنے غصے کو پی لیا ۔
اس کنیز نے کہا: وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ۔ یعنی: اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: عفوت عنك۔ یعنی:میں نےتمہیں معاف کردیا۔
اس کنیز نے کہا: وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔ یعنی:اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: أنت حرة لوجه الله۔ یعنی:تمہیں خدا کی رضا کی خاطر آزاد کیا۔
امام زین العابدین علیہ السلام اپنے اس کریم اخلاق اور تقویٰ کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے اور لوگ آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور آپ سے محبت رکھتے تھے اگر کہیں لوگوں کا رش ہوتا تو لوگ امام زین العابدین علیہ السلام کے آنے پر راستہ چھوڑ دیتے اور دونوں طرف احترام سے کھڑے ہو جاتے ۔
فرزدق کا امام سجاد j کی شان میں قصیدہ: ہشام بن عبد الملک تخت حکومت پر بیٹھنے سے پہلے ایک مرتبہ حج کے لیے آیا تو طواف کے بعد حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے اس نے حجر اسود تک پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا، پھر اس کے لیے حطیم میں زم زم کے کنویں کے پاس ایک منبر لگا دیا گیا جس پر بیٹھ کر وہ لوگوں کو دیکھنے لگا اور اہل شام اس کے گرد کھڑے ہو گئے۔
اسی دوران حضرت امام سجادj بھی آ کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے اور جب وہ حجر اسود کی طرف بڑھے تو لوگوں نے امام سجادj کو خود ہی راستہ دے دیا اور وہ حجر اسود کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر ایک شامی نے کہا: یہ کون ہے جس کی لوگوں کے دلوں میں اتنی ہیبت و جلالت ہے کہ لوگ اس کے لیے دائیں بائیں ہٹ کر صف بستہ کھڑے ہو گئے؟
ہشام نے اس شامی کو جواب دیتے ہوئے کہا: میں اس کو نہیں جانتا۔ حالانکہ ہشام خوب اچھی طرح سے امام سجاد jکو جانتا اور پہنچانتا تھا لیکن پھر بھی اس نے جھوٹ بولا کہ کہیں ان شامیوں کے دل میں امام سجادj کی ہیبت و جلالت نہ بیٹھ جائے۔
فرزدق بھی وہیں پر موجود تھا اس نے سوال کرنے والے شامی سے کہا: میں اس شخص کو جانتا ہوں۔
اس شامی نے کہا: اے ابا فراس کون ہے یہ؟
تو فرزدق نے اس کے جواب میں ا یک ایسا قصیدہ پڑھا کہ جس نے باطل کے پردوں کو ہٹا کر ہر طرف حق کا نور پھیلا دیا اور اس قصیدہ کے چند شعر اور ان کا ترجمہ یہ ہے:
يا سائلي أين حلّ الجودُ والكرمُ عندي بيان إذا طلاّبُه قَدِمُوا
اے ’’کہاں ہے سخاوت اور کرم‘‘ کا سوال کرنے والے! اگر اس بات کو جاننے کے طلبگار آ جائیں تو میرے پا س اس کا جواب ہے۔
هذا الذي تَعِرفُ البطحاءُ وطأته والبيتُ يعرفُهُ والحِلُّ والحَرَمُ
یہ وہ شخصیت ہیں جن کے نشانِ قدم کو بھی وادئ بطحاء(مکہ) پہنچانتی ہے، انھیں خانہ کعبہ، حرم اور حرم سے باہر کا سارا علاقہ پہنچانتا ہے۔
هذا ابن خيرِ عبادِ اللهِ كُلهمُ هذا التقي النقي الطاهر العلمُ
یہ تمام بندگان خدا میں سے بہترو افضل ہستی کے فرزند ہیں، یہ متقی و پرہیز گار پاک و پاکیزہ اور عَلمِ ہدایت ہیں۔
ھذا علی رسول اللہ والدہ امت بنور ھداہ تھتدی الظلم
یہ علی ہیں اور ان کے بابا رسول خداo ہیں، کہ جن کے نور سے امت تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتی ہے۔
إذا رأتهُ قريش قال قائلها إلى مكارم هذا ينتهي الكـرم
جب قریش انھیں دیکھتے ہیں تو کہنے والے کہتے ہیں ان کے بلند مرتبہ اور اخلاق پہ جو د و سخا کی انتہاء ہوتی ہے۔
ینمي الی ذروة العز الذی قصرت عن نیلھا عرب الاسلام والعجم
انھیں عزت و شرف کی وہ بلندی نصیب ہوئی ہے جس کو پانے سے عرب و عجم قاصر ہیں۔
يكاد يمسكه عرفان راحته رُكن الحطيمِ إذا ما جاءَ يستلمُ
اگر یہ حجر اسود کا بوسہ لینے نہ آتے تو حجر اسود والا کونہ خود ان کی ہتھیلی کو چومنے ان کے پاس پہنچ جاتا۔
یفضی حیاء ویفضی من مھابته فما تکلم الاّ حین یتبسم
وہ حیا و شرافت کی وجہ سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں اور ان سے صرف اس وقت بات کی جا سکتی ہے جب وہ مسکرا رہے ہوں۔
ھذا ابن فاطمة ان کنت جاھله بجدہ انبیاء اللہ قد ختموا
اگر تم ان کو نہیں جانتے تو جان لو یہ فرزندِ فاطمہ ہیں ان کے جد امجد پر تمام انبیاء کی نبوت کا اختتام ہوتا ہے۔
اللہ شرفه قدما و عظمه جری بذاک له فی لوحه القلم
اللہ نے انھیں پیدائش سے پہلے ہی شرف اور عظمت سے نوازا، اور ان کی عظمت کو قلم نے لوحِ محفوظ میں لکھا۔
من جدہ دان فضل الانبیاء له و فضل امّته دانت له الامم
ان کے جد امجد کی عظمت کو انبیاء کی فضیلتیں نہیں پہنچ پاتیں اور ان کی امت کی عظمت کے سامنے تمام امتوں کی عظمتیں کم نظر آتی ہیں۔
سھل الخلیقة لا تخشی بوادرہ یزینه خصلتان الخلق والکرم
یہ نرم مزاج ہیں اور ان کے غصے کا ڈر نہیں اور یہ دو اوصاف ان کے اخلاق کو مزین کیے ہوئے ہیں۔
من معشر حبھم دین و بغضھم کفر وقربھم منجي ومعتصم
لوگوں کا ان(آل رسول) سے محبت کرنا عین دین ہے اور ان سے بغض وکینہ رکھنا عین کفر ہے ان کا قرب ہی نجات دینے والا اور بچانے والا ہے۔
یستدفع الشر والبلوی بحبھم ویسترب به الاحسان و النعم
ان کی محبت کے صدقہ میں شر اور بلائیں دور ہوتی ہیں، اور ان کے وسیلے سے احسان خدا اور نعمات الہی کو حاصل کیا جاتا ہے۔
مقدم بعد ذکر اللہ ذکرھم فی کل یوم و مختوم به الکلم
ذکرِ خدا کے بعد ہر روز ان کا ذکر سب سے مقدم و افضل ہے اور انہی کے ذکر کے ساتھ کلام کا اختتام ہوتا ہے۔
ان عدّ اھل التقي کانوا آئمتھم او قیل من خیر اھل الارض قیل ھم
اگر اہل تقوی کو شمار کیا جائے تو یہ متقیوں کے امام نظر آئیں گے اور اگر کوئی کہے زمین پر سب سے افضل کون ہیں؟ تو بھی کہا جائے گا سب سے افضل یہی ہیں۔
لا یستطیع جواد بعد غایتھم ولا یدانیھم قوم وان کرموا
کوئی بھی سخی ان کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتا اور کوئی بھی قوم چاہے جتنی بھی سخاوت کر لے ان کی برابری نہیں کر سکتی۔
یابی لھم ان یحل الذم ساحتھم خیم کریم واید بالندی ھضم کریم
ان کا اخلاق ان کے در پر مذمت کو آنے نہیں دیتا اور ان کے ہاتھوں کی سخاوتیں ہر وقت جاری ہیں۔
لاینقص العسر بسطا من اکفھم سیان ذلک ان اثروا وان عدموا
حالات کی تنگی ان کے سخاوت کو کم نہیں کرتی چاہے ان کے پاس مال ہو یا کچھ نہ ہو ان کی سخاوت کے انداز نہیں بدلتے۔
امام سجادjکی شہادت: حضر ت امام سجادj نے اپنے کردار و عمل سے ظالموں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا، امام سجادj کبھی تو اپنے مظلوم بابا حضرت امام حسینj کی شہادت اور سانحہ کربلا کے مصائب پر گریہ کرتے، کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فريضہ سر انجام دیتے اور کبھی اپنے کردار و عمل کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی رہنمائی کرتے......
حضرت امام سجادj کے طرز عمل سے لوگوں کو امام حسینj اور اہل بیت رسولo کی مظلومیت سے آگاہی مل رہی تھی، نسل در نسل اہل بیت کے حقوق کو غضب کرنے والوں کے اصل چہرے لوگوں پہ عیاں ہو رہے تھے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانوں کی بجائے اہل بیت کا اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا تھا.....
اور یہی وہ بات تھی جس نے بنی امیہ کے لیے حضرت امام سجادj کے مقدس وجود کو خطرہ بنا دیا تھا اور وہ نبوت کی نیابت میں جلنے والی اس شمعِ امامت کو بجھانے کے درپے ہو گئے، آخر میں اس ظلم کو ڈھانے کی ذمہ داری ولید بن عبدالملک اور بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبد الملک کو سونپی گئی کہ جس نے ایک کھانے میں زہر ملا کر حضرت امام سجادj کو کھلا دیا۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت 57 سال کی عمر میں 95 ہجری میں ہوئی آپ نے اپنی زندگی کے دو سال اپنے دادا حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، 10 سال امام حسن علیہ السلام کے ساتھ اور 23 سال امام حسین علیہ السلام کے ساتھ گزارے اور اپنے بابا کی شہادت کے بعد 34 سال اس دنیا میں رہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے چند اقوال:
1- جو خدا کے عطا کردہ رزق پر قناعت کرے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ غنی و مالدار ہے۔
2 ۔ سنجیدگی اور مذاق میں ہر چھوٹے بڑے جھوٹ سے پرہیز کرو، اگر کوئی شخص کسی چھوٹے سے کام میں جھوٹ بولے تو وہ اسے بڑے جھوٹ کی جرأت دے گا۔
3 - مومن کو دعا کے بدلے میں تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملتی ہے یا تو اس کا ثواب محفوظ کر لیا جاتا ہے، یا اس کی دعا کو فوری طور پر پورا کر دیا جاتا ہے، یا پھر اس دعا کے بدلے میں اسے ایسی مصیبت سے نجات دے دی جاتی ہے کہ جو اس پر آنے والی ہوتی ہے۔
4 - مومن کی نجات تین امور میں ہے: اپنی زبان کو لوگوں کے بارے میں باتیں کرنے اور ان کی برائی کرنے سے روکنا، اپنے آپ کو ان کاموں میں مصروف رکھنا جو اس کی دنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند ہیں، اپنے گناہوں پہ طولانی گریہ کرنا۔
5 - اپنے مومن بھائی کی طرف مسکرا کر دیکھنا عبادت ہے۔