آج سات ذی الحجہ ہے یہ وہ دن ہے جس میں خاندان رسالت کے زخم تازے ہو گئے، غم و حزن نے مکمل طور پر اہل بیت کو گھیر لیا کیونکہ یہ وہی دن ہے جس میں بنو امیہ نے رسول کے پانچویں حقیقی نائب و جانشین حضرت امام محمد باقر(ع) کو زہر سے شہید کر دیا۔
روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے تمام خدام اور الکفیل نیٹ ورک کے تمام ارکان اس المناک سانحہ پہ امام زمانہ، مراجع عظام، علماء کرام اور تمام مومنین کو پرسہ پیش کرتے ہیں۔
آج کے دن کی مناسبت سے چند جملے امام باقر(ع) کے بارے میں:
نام و لقب: آئمہ اہل بيت میں سے پانچویں امام کا نام مبارک محمد اور لقب باقر ہے عام طور پر آپ کو کتابوں اور گفتگو میں امام محمد باقر(ع) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تاریخ و مقام ولادت: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت سن 57ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔
والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ جناب فاطمہ بنت امام حسن بن علی بن ابی طالب ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جناب فاطمہ بنت امام حسن کے بارے میں فرماتے ہیں: كانت صِديقة لم يدرك في آل الحسن مثلها۔ یعنی: فاطمہ بنت امام حسن صدیقہ تھیں اور امام حسن(ع) کی اولاد میں اِن سے زیادہ برگزیدہ کوئی نہیں ہے۔
باقر کا معنی پھیلانا ہے اور آپ کو باقر کے لقب سے یاد کیے جانے کی وجہ یہ کہ آپ نے ہر طرح کے علوم کو پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کیا اور آباء و اجداد سے ملنے والے علومِ نبوت اور علوم کے پوشیدہ خزانوں کو دنیا تک پہنچایا۔ تمام اسلامی ممالک کے شیعہ اور سنی علماء آپ کے علوم سے مستفید ہوتے تھے تمام تشنگانِ علم کی منزل مقصود آپ کی ہی ذات گرامی تھی آپ کے پاس تعلیم حاصل کرنے والوں میں سفيان ثوری، سفيان بن عیینہ محدث مكہ اور امام ابو حنیفہ سرفہرست ہیں۔ {کتاب الامام الصادق ص 22 طبع اول مؤلف شيخ ابو زہرة}
اولاد: امام باقر علیہ السلام کی اولاد کی تعداد سات ہے کہ جن کے نام درج ذیل ہیں:
(1): امام جعفر صادق(ع)،(2): عبد الله۔ ان کی والدہ جناب ام فروة بنت قاسم بن محمد بن ابو بكر ہیں۔
(3): ابراہيم، (4): عبيد اللہ۔ ان کی والدہ ام حكيم بنت اسد ثقفيہ ہیں۔
(5):علی، (6):زينب ان کی والدہ ام ولد(کنیز) ہیں۔
(7):ام سلمہ، ان کی والدہ ام ولد( ایک دوسری کنیز) ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جليل القدر صحابی جابر بن عبد الله انصاری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:تم اس وقت تک زندہ رہو گے کہ جب تک تم حسین کی نسل سے میرے بیٹے سے نہیں مل لیتے کہ جس کا نام محمد ہے اور وہ علم کو ہر طرف پھیلائے گاجب تم اس سے ملنا تو اسے میرا سلام کہنا۔ پس میں رسول خدا(ص) کے فرمان کے مطابق امام باقر(ع) سے ملاقات تک زندہ رہا اور جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کا ہاتھ چوما اور انھیں رسول خدا(ص) کا پیغام پہنچایا۔ امام باقر(ع) نے رسول خدا(ص) پر درود و سلام بھیجا۔
ایک دن حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران ایک بوڑھے شخص نے دروازہ میں کھڑے ہو کر امام باقر علیہ السلام کو ان الفاظ میں سلام کیا: السلام عليك يا ابن رسول اللہ ورحمة اللہ وبركاته۔
امام باقر علیہ السلام نےاس کے سلام کا جواب دیا۔
تو اس بوڑھے شخص نے کہا: اے رسول خدا کے بیٹے اللہ تعالیٰ میری جان آپ پہ قربان کرے،خدا کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور ہر اس شخص سے بھی محبت کرتا ہو کہ جو آپ سے محبت رکھتا ہے اور میری یہ محبت دنیا کی کسی لالچ کے لئے نہیں ہے،اور میں آپ کے دشمن سے بغض رکھتا ہوں اوراس سے برأت اور لا تعلقی کا اعلان کرتا ہوں اورمیرا آپ کے دشمن سے بغض رکھنا میرے اور اس کے درمیان کسی ذاتی اختلاف کی بنا پر نہیں ہےاور میں آپ کی حلال کردہ اشیاء کو حلال سمجھتا ہوں اور آپ کی حرام کردہ اشیاء کو حرام قرار دیتا ہوں اور میں آپ کے حکم کا منتظر رہتا ہوں اللہ تعالیٰ میری جان آپ پر قربان کرے کیا آپ میرے لئے خیر و بھلائی کی امید رکھتے ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دفعہ میرے والد کے پاس ایک شخص آیا اوراس نے ان سے تمہارے والا ہی سوال کیا تو میرے والد نے اس سے فرمایا: جب تم مرو گے تو تمہیں رسول خدا(ص)، حضرت علی(ع)، حضرت حسن(ع)اور حضرت حسین(ع)کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا جس سے تمہارا دل پر سکون اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گے، مرنے کے بعد تمہارا استقبال رحمت و ریحان سے ہو گااور تم ہمارے ساتھ جنت کے اعلیٰ مقام میں ہو گے۔
اس بوڑھے شخص نے یہ جواب سن کے خوشی سے روتے ہوئےکہا: اللہ اکبر میں آپ کے ساتھ جنت کے اعلیٰ مقام میں ہوں گا۔ اس کے بعد اس نے امام باقر علیہ السلام کا ہاتھ چوما اپنی آنکھوں پہ لگایا اور اسے اپنے چہرے اور سینے پہ مس کیا۔
اس کے بعد وہ بوڑھا شخص امام علیہ السلام سے اجازت لینے کے بعد واپس چلا گیا۔
امام باقر علیہ السلام نے اس وقت فرمایا: جو بھی اہل جنت میں سے کسی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اسے دیکھے۔
اہل بیت علیھم السلام کے شیعہ کی یہی صحیح تعریف ہے کہ وہ اہل بیت علیھم السلام کی حلال کردہ اشیاء کو حلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام قرار دیتا ہےاور خدا کی خوشنودی و رضا کے حصول کی خاطراہل بیت کے چاہنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور اہل بیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بغض رکھتا ہے۔
جو شخص اپنی خواہشات اور شہوات کی اتباع کرتے ہوئے گزشتہ روز جس چیز کو حرام قرار دیتا تھا اسے آج اپنے لئے حلال سمجھتا ہے، جو شخص اپنے آپ کو اہل بیت علیھم السلام کا شیعہ سمجھتا ہے اور ساتھ ہی اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والوں سے بغض اور دشمنی بھی رکھتا ہےاور ان کے لئے سازشیں بھی کرتا ہے تو اس شخص کا اسلام اور تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ خداو رسول اور اہل بیت کا دشمن ہے۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: من عادى شيعتنا فقد عادانا، ومن والاهم فقد والانا، لأنهم خلقوا من طينتنا، من أحبهم فهو منا، ومن أبغضهم فليس منا
یعنی: جو شخص ہمارے شیعوں سے دشمنی رکھتا ہے وہ ہم سے دشمنی رکھنا ہے اور جو ہمارے شیعوں سے محبت رکھتا ہے وہ ہم سے محبت رکھتا ہے کیونکہ ہمارے شیعہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں لہٰذا جو بھی ہمارے شیعوں سے محبت رکھتا ہے وہ ہم میں سے ہے اور جو بھی ہمارے شیعوں سے بغض رکھتا ہے اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
جب تک ہم اپنی انااور خود پسندی سے باہر نہیں نکلتے اس وقت تک ہم امام(ع) کے اس فرمان کو نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ شیعہ ہونے کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ ہم اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والوں سے صرف اور صرف اہل بیت رسول کا شیعہ ہونے کے ناطے محبت و اخلاص رکھیں اور ان کی خاطر ہر طرح کی قربانی پیش کریں۔
اگر ہم اس معنی میں شیعہ بن گئے تو ہم ہر ایک کے لئے نمونہ عمل بن جائیں گے اور ہم میں محبت اور بھائی چارہ قائم ہو جائے گا اور آپس میں ہر طرح کے حسد و بغض وغیرہ کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ شیعت محبت و اخوت کا نام ہے کہ جو ہر بھلائی، فضیلت اور عظمت کی اساس ہے جبکہ حسد ہر رذالت و برائی کی جڑ ہے۔
شہادت: حضرت امام باقر علیہ السلام کی شہادت7ذی الحجہ 114 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ(ع) نے اپنی زندگی کے چار سال امام حسین علیہ السلام کےساتھ اور39سال اپنے بابا کے ساتھ گزارے اور اپنے بابا کی شہادت کے بعد18سال تک زندہ رہے۔