یزید ملعون نے عمرو بن سعید بن عاص کو ایک لشکر کے ساتھ حاجیوں کے لباس میں بھیجا اور اسے حکم دیا کہ اگر امام حسین علیہ السلام خانہ کعبہ کے پردوں میں بھی ہوں تب بھی انہیں قتل کر دو۔ امام حسین علیہ السلام تک جب یہ خبر پہنچی تو آٹھ ذی الحجہ کو آپ نے اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور احرامِ حج کھول دیئے تاکہ ان کے قتل سے کعبہ اور ماہِ حج کی حرمت پامال نہ ہو اور دوسری طرف جناب مسلم علیہ السلام کی طرف سے بھی امام حسین علیہ السلام کو ایک خط مل چکا تھا کہ جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوفہ والے جان و مال کے ذریعے فرزندِ بتول کی مدد و نصرت کے لیے تیار ہیں اور اپنے ملک میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی حکومت کی مثل حکومت قائم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پس حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئے کہ جن کو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے اہلِ بیت علیھم السلام کے جوانوں نے گھیر رکھا تھا۔
حر بن یزید ریاحی کی سپاہ کا سامنا
ابو مِخنَف نے نقل کیا ہے کہ "جب قافلۂ حسینی "شراف" کی منزل سے روانہ ہوا تو حر بن یزید اور اس کے ایک ہزار سپاہی ظہر کے وقت امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کے آمنے سامنے آ گئے، امام(ع) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ حر اور اس کے سپاہیوں کو اور گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ انھوں نے ناصرف دشمن کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی۔
اسی دن عصر کے وقت امام حسین(ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ روانگی کی تیاری کریں۔
جب روانہ ہونے لگے تو حر نے راستہ روک کر کہا: ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو ابن زياد کے پاس لے جائیں"۔ امام(ع) نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: "واپس لوٹو!"، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھی سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا: "مجھے آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا ہے!"۔
امام(ع) نے فرمایا: "امام(ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا"۔
حر نے کہا: "پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے راستے پر چلیں جو کوفہ کی طرف بھی نہ جا رہا ہو اور نہ ہی مدینہ کی طرف، تاکہ میں ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے روانہ کروں۔
امام حسین(ع) "عذیب" اور "قادسیہ" کے بائیں جانب سے روانہ ہوئے جبکہ آپ(ع) عذیب سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور حر آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
پو پھٹتے وقت امام حسین(ع) البیضہ کی منزل پر رک گئے اور نماز صبح ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ظہر کے وقت سرزمین نیوی' میں پہنچے۔
اسی جگہ ابن زياد کے قاصد نے آ کر اس کا خط حر کے حوالے کیا جس میں اس نے لکھا تھا: " جونہی میرا خط تم تک پہنچے اور میرا قاصد تمہارے پاس آئے تو حسین پر سختی کرو اور انہیں مت اتارو مگر لق و دق اور بےآب و گیاہ زمین پر! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ تم سے جدا نہ ہو تاکہ وہ میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔
حر نے ابن زياد کا خط امام حسین(ع) کو پڑھ کر سنایا، امام(ع) نے فرمایا: "ہمیں "نینوی'" یا "غاضریہ" میں اترنے دو"۔
حر نے کہا: "یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عبید اللہ یہ خط پہنچانے والے قاصد کو مجھ پر جاسوس قرار دیا ہے!"
پس دونوں لشکر ساتھ ساتھ چلتے رہے حتی کہ "کربلا" پہنچ گئے۔ حر اور اس کے ساتھی امام حسین(ع) کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے روک دیا۔
امام حسین(ع) کربلا میں آمد
بیشتر تاریخی منابع نے اپنی روایات میں پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کے کربلا میں اترنے کی تاریخ قرار دیا ہے۔
جب حر نے امام(ع) سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے"۔امام(ع) نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟"۔
سب نے کہا: كربلا۔ فرمایا: یہاں كَرْب (رنج) اور بَلا (مصیبت) کا مقام ہے۔ میرے والد صفین کی طرف عزیمت کرتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اور آپ نے فرمایا: "یہاں، یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے"، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "خاندان محمد(ص) کا ایک قافلہ یہاں اترے گا"۔ امام حسین(ع) نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان وہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم کا دن تھا۔
منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسین(ع) نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا: اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين ۔ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے نبی(ص) کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے نانا رسول اللہ(ص) کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما"۔
اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ان الناس عبيد الدنيا، والدين لعق على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون"۔ ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں ۔
اس کے بعد امام(ع) نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4×4میل تھا ـ نینوی' اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔
دو محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسین(ع) اور اصحاب کربلا میں حسین(ع) کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، حر بن يزيد ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔ حرکا خط موصول ہونے پر عبید اللہ نے ایک خط امام حسین(ع) کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا: امّا بعد، اے حسین(ع)! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید بن معاویہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام"۔
مروی ہے کہ امام حسین(ع) نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا: جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے"۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا ۔
قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسین(ع) کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امام(ع) کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔