تین محرم الحرام 61 ھ کو عمر بن سعد اپنے لشکر سمیت سیدالشہداءإمام الحسين(ؑع) سے مقابلے کے لئےکربلاء پہنچا

تاریخ میں ابن سعد کی وجہ شہرت کربلا کے خونی واقعے میں اس کی شرکت ہے جس میں امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب شہید ہوئے۔ اس واقعے نے ابن سعد کو تاریخ کے قابل نفرت چہروں میں قرار دیا۔

عمر سعد امامؑ کے کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے دوسرے روز یعنی تین محرم الحرام کو 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا۔عمر سعد کی کربلا آنے کی کیفیت کے بارے میں منقول ہے:

"عبید اللہ بن زياد نے عمر سعد کو چار ہزار کوفیوں کے لشکر کا امیر قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ ان کوفیوں کو رے اور دَستَبی" لے کر جائے اور ان علاقوں پر قابض دیلمیوں کے خلاف جنگ کرے۔ عبید اللہ نے پہلے ہی رے کی حکومت کا حکم عمر سعد کے نام پر لکھ دیا تھا اور اس کو رے کا والی مقرر کیا تھا۔ ابن سعد اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے باہر نکلا اور "حمام اعین" کے مقام پر لشکرگاہ قائم کی۔ وہ رےجانے کے لئے تیاری کررہا تھا کہ اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مسئلہ پیش آیا؛ اور جب امام حسینؑ نے کوفہ کی طرف عزیمت کی تو ابن زیاد نے عمر سعد کو بلوایا اور حکم دیا: "پہلے امام حسینؑ سے جنگ کرنے جاؤ اور اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اپنی حکومت کے مقام کی طرف کوچ کرو"۔ عمر سعد نے عبید اللہ بن زیاد سے کہا: "مجھے اس کام سے معاف کرو"؛ لیکن ابن زیاد نے اس جنگ سے عمر سعد کی معافی کو رے کی حکومت کا حکم واپس کرنے سے مشروط کیا۔[

عمر سعد نے جب یہ سنا تو کہا: (میں کربلا) جاتا ہوں"۔چنانچہ اپنا چار ہزار افراد کا لشکر لے کر کربلا پہنچا اور نینوی' کے مقام پر امام حسینؑ کے اترنے کے دوسرے روز وہ بھی وہاں پہنچا۔

امام حسین ؑ اور عمر ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا آغاز

عمر ابن سعد نے کربلا پہنچتے ہی امام حسینؑ کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ آپؑ سے پوچھ لے کہ "۔۔۔اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟"۔ اس نے یہ کام عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی اور امامؑ کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی؛ مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا۔ تاہم كثير بن عبداللہ شعیبہ نے تجویز مان لی اور خیام حسینی کی جانب روانہ ہوا، لیکن او ثمامہ صا‏ئدی نے اس کو ہتھیار لے کر امامؑ کے حضور پہچنے سے روک لیا، کثیر نامراد ہوکر عمر ابن سعد کے پاس لوٹ کر چلا گیا۔[

کثیر کی واپسی پر عمر ابن سعد نے قرة بن قيس حنظلى سے امامؑ کے پاس جانے کی درخواست کی۔

امام حسینؑ نے عمر کے پیغام کے جواب میں قرہ بن قیس سے فرمایا: "تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے کہ یہاں آجاؤں، اب اگر وہ مجھے نہيں چاہتے تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔ عمر ابن سعد اس جواب سے خوش ہوا پس ایک خط ابن زیاد کو لکھا اور اس کو امام حسینؑ کے اس کلام سے آگاہ کیا۔

ابن زیاد نے عمر بن سعد کے اس خط کے جواب میں لکھا "یا حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرے یا سپاہ کوفہ کی امارت شمر بن ذی الجوشن کے سپرد کر دے"، لیکن ابن سعد نے اس خط کے جواب میں شمر سے کہا: "میں خود سپاہ کا امیر ہونگا اور امام حسین(ع) کے ساتھ لڑوں گا"؛ اور پھر یہ واضح کرنے کے لئے کہ وہ امام(ع) کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے پر عزم ہے، اس نے سب سے پہلا تیر امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کی طرف پھینکا۔[

ابن زياد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش

ابن زیاد ہر روز صبح اور شام کوفیوں فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے کربلا روانہ کرتا تھا حتی کہ چھ محرم الحرام کو ابن سعد کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔

سات محرم اور پانی کی بندش

سات محرم کو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ "حسینؑ اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔

خط ملتے ہی ابن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسینؑ اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔

شہداء کے جسموں کی پامالی

ابن سعد نے امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کی شہادت کے بعد حکم دیا کہ ان کے جسموں پر گھوڑے دوڑائے جائیں اور انہیں پامال کیا جائے اور 12 محرم کو اس نے اپنی سپاہ کے ہالکین کو دفنا دیا، خاندان حسین(ع) کو اسیر بنایا اور کوفہ کی طرف روانہ ہوااور جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس پہنچا تو ابن زیاد نے کہا کہ امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کے سلسلے میں اس کا بھیجا ہوا خط واپس دے۔ ابن سعد نے دعوی کیا کہ وہ خط کہیں جل کر ضائع ہوچکا ہے۔ ابن زیاد نے کہا: میں وہ خط تم سے لے کر رہوں گا۔

ابن سعد نے ـ جو ہر طرف سے مایوس ہوچکا تھا ـ اپنی حالت کو یوں بیان کیا ہے: "کوئی بھی مجھ سے بد تر حالت میں اپنے گھر کو نہیں پلٹا، کیونکہ میں ایک فاجر اور ظالم امیر کی اطاعت کرچکا ہوں اور عدل کو پامال کرچکا ہوں اور اپنی قرابت کے رشتوں کو منقطع کرچکا ہوں"
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: