امام زین العبادین(ع) کا اپنے بابا اور اہل بیت کے مصائب پر مسلسل گریہ

امام علی بن امام حسین زین العابدین علیہما السلام پہلے اپنے بابا، بھائیوں، چچا زاد بھائیوں ، اور اپنے بابا کے اصحاب وانصار کی المناک شہادت کے شاہد بنے اور پھر مخدارتِ عصمت وطہارت کے ساتھ قیدی بنے اور کربلا سے کوفہ اور شام تک اسیران کربلا کے ساتھ پابند رسن اذیت ناک سفر کیا اور دشمنوں کا انتہائی غیر انسانی برتاؤ برداشت کیا۔
ان تمام افسوسناک واقعات اور المناک مناظر نے انھیں شدید ترین غم والم اور حزن وملال میں مبتلا کر دیا، سانحہ کربلا کے بعد جب تک وہ زندہ رہے ان کی ساری زندگی گہرے سوگ کے عالم میں گریہ کرتے ہوئے گزری۔
ایک روایت کے ضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول کہ امام سجادؑ نے (تقریبا) چالیس سال تک اپنے والد کے لئے گریہ کیا جبکہ دنوں کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے، افطار کے وقت جب آپ کو کھانا اور پانی پیش کیا جاتا تو آپؑ فرمایا کرتے: "فرزند رسول اللہ بھوکے پیاسے مارے گئے!"، اور یہی بات مسلسل دہراتے رہتے اور گریہ کرتے تھے حتی کہ آپ کے اشک آپ کے آب و غذا میں گھل مل جاتے۔
ایک دن ایک چاہنے والے نے آپ سے کہا: اگر آپ کی یہی حالت رہی تو مجھے ڈر ہے کہ آپ زندہ نہیں رہ پائيں گے۔
امام نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کا اظہار اللہ ہی کے سامنے کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
پھر فرمایا: حضرت یعقوب نبی تھے اور اللہ نے ان کا صرف ایک بیٹا ان کی آنکھوں سے اوجھل کر دیا جبکہ ان کے بارہ بیٹے ان کے پاس ہی تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا زندہ ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے رو رو کر اپنی آنکھیں سفید کر لیں۔ جبکہ میں نے اپنے بابا، اپنے بھائیوں، اپنے ہر چچا اور تمام اصحاب وانصار اپنے ارد گرد مقتول دیکھا ہے میرا یہ دکھ درد کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ میں جب بھی فرزندِ فاطمہ کی شہادت کو یاد کرتا ہوں صبر کا دامن مجھ سے چھوٹ جاتا ہے میں گریہ کرنے لگتا ہوں میں جب اپنی پھوپھیوں اور بہنوں کو دیکھتا ہوں مجھے ان کا شام غریباں میں ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی جانب تیزی سے جانا یاد آ جاتا ہے۔
امام سجاد جب بھی پانی کی طرف دیکھتے تو ان کا حزن اور درد کئی گنا بڑھ جاتا، انھیں اپنے اپنے بابا اور اہل بیت کی پیاس یاد آ جاتی۔ راوی کہتے ہیں: جب بھی امام سجاد(ع) پانی پینے لگتے تو گریہ شروع کر دیتے، جب بھی ان سے اس بارے میں بات کی جاتی تو وہ فرماتے: میں کیسے گریہ نہ کروں میرے بابا کے پانی پینے پر پابندی تھی لیکن درندوں کو اسے پینے کی آزادی تھی۔
*ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ*

ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ع ، ﺣﻀﺮﺕ ﻳﻌﻘﻮﺏ ع ، ﺣﻀﺮﺕ ﻳﻮﺳﻒ ع، ﺣﻀﺮﺕ سیدہ فاطمہ ﺑﻨﺖ ﻣﺤﻤﺪ ص اور ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ

1⃣ ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺟﻨﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺷﮏ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﭘﺮﻧﺎﻟﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔

2⃣ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻌﻘﻮﺏ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺁﭖ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ،

3⃣ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﺩﻭﺭﯼ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﺍﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺫﯾﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺣﺘﯽ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺩﻥ ﮐﻮ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ ﯾﺎ ﺩﻥ ﮐﻮ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﺎﺹ ﻭﻗﺖ ﻣﻌﯿّﻦ ﮐﺮﻟﯿﺎ۔

4⃣ ﺣﻀﺮﺕ سیدہ فاطمہ زہرا ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺫﯾﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺫﯾﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﯽ ﺑﯽ ﺩﻥ ﮐﻮ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﮔﮭﺮ ﺁ ﺟﺎﺗﯿﮟ۔

5⃣ امام سجاد ﻋﻠﻰ ع ﻧﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ، ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻭﮦ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ،

ﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﺎﺩﻡ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﮮ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻧﮧ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺍﻣﺎﻡ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻢ ﻭ ﺣﺰﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ، ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕ سیدہ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﻗﺘﻠﮕﺎﮦ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺷﮏ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: