حضرت عباس(ع) کی وفا اور شجاعت جسے عزادار پوری دنیا میں یاد کر رہے ہیں

ماہِ محرم کے پہلے عشرۃ کے ایام ان شخصیات کے ساتھ مختص ہیں جن کے کردار اور جن کی انقلابِ حسینی میں مدد نے سانحہ کربلا پر لافانی اثرات مرتب کیے ہیں اور تاریخ نے بھی ان کے ذکر کو نورانی الفاظ میں محفوظ رکھا ہے لہذا وہ انسانی کمال، شرافت، بلند اقدار اور فضیلت کا عروج قرار پائے اور جبینِ دھر کی ہر نسل کے لیے اعلی ترین نمونہ کی صورت باقی رہیں گے۔

عشرہ محرم کے جن دنوں کے احیاء کو عزاداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ان میں سے ایک سات محرم کا دن بھی ہے کہ جس کی رات اور دن میں مجالس عزاء اور ماتمی جلوسوں میں خصوصی طور پر بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں اور سات محرم سے مختص ہستی کا بہت عقیدت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور امام حسین(ع) کو پرسہ پیش کرتے ہیں اور وہ ہستی امام حسین(ع) کے بھائی اور لشکرِ حسینی کے علمدار حضرت عباس(ع) کی ہے کہ جن کا ذکر سات محرم کی ہر مجلس اور ہر ماتمی جلوس میں سنا جا سکتا ہے۔

اس کی وجہ حضرت عباس(ع) کی بہادری اور امام حسین(ع) سے وہ عظیم وفا ہے جس کی بلندیوں تک نہ کوئی پہنچ سکا ہے اور نہ کوئی پہنچ سکے گا۔ معرکہ کربلا میں حضرت عباس(ع) اکیلے ہی ایک پوری فوج کے برابر تھے جب تک وہ زندہ رہے حرم رسول(ص) نے اپنے آپ کو محفوظ سمجھا۔

حضرت عباس(ع) کی شجاعت کی وجہ سے ہی ابن زياد ملعون کی فوج کے ایک سردار نے کہا تھا امام حسین(ع) کی پوری فوج کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور عباس بن علی(ع) کی تلوار کو دوسرے پلڑے میں تو تب بھی عباس(ع) کا پلڑا بھاری ہی ہو گا اس لیے جب تک عباس(ع) کے بازو سلامت ہیں ہم حسین بن علی(ع) کو شہید نہیں کر سکتے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: