نویں محرم کی شب کو امام حسین اور عمر بن سعد میں آخری گفتگو ہوئی۔ آپ کے ہمراہ حضرت عباس اور جناب علی اکبر بھی تھے۔ آپ نے گفتگو میں ہر قسم کی حجت تمام کر لی۔
مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کوفہ واپس گیا اور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع)بیعت نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑادے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو چار ج دے دے ہم نے اسے یزید کے حکم کی تعمیل کا حکم دے دیا ہے۔
9 محرم کے دن ظہر سے پہلے شمر بن ذی الجوشن چار ہزار سپاہی لے کر سرزمین کربلا میں داخل ہوا وہ عمر بن سعد کے لئے عبیداللہ بن زیاد کا خط لے کر آیا تھا چنانچہ کربلا پہنچتے ہی اس نے خط ابن سعد کے سپرد کیا. اس خط میں ابن زياد نے ابن سعد کو حکم دیا تھا کہ یا تو امام حسین(ع)کو بیعت پر مجبور کرے یا پھر آپ(ع)کے خلاف لڑائی چھیڑ دے. عبید اللہ نے اس خط کے ضمن میں عمر بن سعد کو دھمکی آمیز انداز سے لکھا تھا کہ اگر وہ اس کے احکامات کی مکمل تعمیل نہ کرے تو اس کو لشکر سے کنارہ کشی کرکے اس کی سربراہی کا عہدہ شمر کے سپرد کرنا پڑے گا
ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس کام کی اہلیت نہیں دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں اس کام کو خود ہی انجام تک پہنچا دوں گا؛ تم صرف پیدل دستوں کے سالار رہو"
ام البنین(س) کے بیٹوں کے لئے امان نامہ
(کوفہ میں) شمر نے عمر سعد کے لئے عبیداللہ کا خط لینا چاہا تو اس ام البنین(س) کے بھتیجے عبداللہ بن ابی المحل کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی. عبیداللہ نے اس تجویز کو پسند کیا
عبداللہ بن ابی المحل نے مذکورہ امان نامہ اپنے غلام "کزمان یا عرفان" کے ہاتھوں کربلا ارسال کیا اور کربلا پہنچنے کے بعد امان نامے کا متن ام البنین(س) کے فرزندوں کے لئے پڑھا. لیکن انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔
دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر کربلا میں عباس بن علی(ع)اور ان کے بھائیوں عبداللہ، جعفر اور عثمان کو پہنچایا۔
عباس(ع) اور ان کے بھائی ابا عبداللہ الحسین(ع) کے پاس بیٹھے تھے اور شمر کا جواب دے رہے تھے. امام(ع) نے بھائی عباس(ع) سے فرمایا: "گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو، ۔
". عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا: "کیا چاہتے ہو؟" شمر نے ان سے کہا: "اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو؛ میں نے تمہارے لئے عبید اللہ بن زیاد سے امان نامہ حاصل کیا ہے". لیکن عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا: "خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرو؛ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور بنت پیغمبر(ص) امان میں نہ ہوں"
ام البنین(س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر بن سعد نے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور جمعرات 9 محرم بوقت عصر امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب و خاندان کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوئے۔
جنگ کی تیاری
9محرم بوقت عصر صحرای کربلا میں عمر سعد کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور عمر سعد امام حسین(ع)کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري، اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!". کوفی سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار۔
لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، امام(ع) اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے. بہن حضرت زینب(س) لشکر کوفہ میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟". امام حسین(ع)نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا رسول اللہ(ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے". امام حسین(ع)نے عباس بن علی(ع)کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟".
حضرت عباس(ع)، زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی سپاہ کی طرف چلے گئے اور اور ان سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟ اور تم چاہتے کیا ہو؟" انھوں نے کہا: "امیر کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا بیعت کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ". حضرت عباس(ع) نے کہا: "اپنی جگہ سے ہلو نہیں حتی کہ میں ابا عبداللہ (ع) کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپ(ع)کو پہنچا دوں". وہ مان گئے چنانچہ حضرت عباس(ع)اکیلے امام حسین(ع)کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ انہیں پیش آمدہ صورت حال سے آگاہ کریں۔
امام حسین(ع)نے حضرت عباس(ع) سے فرمایا: "اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں تا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی درگاہ میں نماز بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔
جب تک عباس(ع) امام حسین(ع)کے ساتھ گفتگو کررہے تھے، ان کے ساتھیوں حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ابن سعد کی سپاہ کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں امام حسین(ع)کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جبکہ اسی حال میں وہ ابن سعد کے سپاہیوں کی پیشقدمی بھی روک رہے تھے۔
ابوالفضل العباس(ع) دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور امام حسین(ع)کی درخواست ان تک پہنچا دی اور اس رات کو ان سے مہلت مانگی. ابن سعد نے امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب کو ایک رات کی مہلت کی درخواست سے اتفاق کیا، اس دن امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے خاندان اور اصحاب و انصار کے خیام کا محاصرہ کیا گیا.
امام صادق(ع) کی حدیث
امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں اس روز کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: نو محرم وہ دن ہے جس دن حسین(ع)اور اصحاب حسین کربلا میں محصور ہوئے اور شامی سپاہ ان کے خلاف اکٹھی ہوئی. ابن مرجانہ / ابن زیاد اور عمر سعد اتنا بڑا لشکر فراہم ہونے پر خوش ہوئے اور اس دن حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور انھوں نے یقین کرلیا کہ حسین(ع)کے لئے کوئی کمک نہیں آئے گی اور عراقی آپ(ع)کی مدد نہیں کریں گے۔