قیس بن مسہر صیداوی کا ابن زیاد پر لعنت کرنا

روایات سے مذکور ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے کوفہ کے لوگوں کو ان کے خطوط اور پیغامات کے جواب میں انھیں ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اہل کوفہ کو ان کی طرف سے کوفہ آنے کی مسلسل دعوت اور بیعت پر ثابت قدم رہنے کے دعووں کو یاد کروايا، اس خط میں امام حسین(ع) نے اہل کوفہ سے فرمایا:
میرے پاس بلاوے کے تمہارے خطوط آئے، بیعت کا پیغام لے کر تمہارے قاصد آئے، انہوں نے کہا کہ تم مجھے دشمنوں کے حوالہ نہ کرو گے اور بے یارومدد گار نہ چھوڑو گے پس اگر تم اپنی بیعت کے حقوق پورے کرو گے تو ہدایت پاؤ گے میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اور میرے اہلبیت تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں تمہارے لئے میری ذات نمونۂ عمل ہے اب اگر تم اپنے فرائض پورے نہ کرو گے اور اپنا عہد وپیمان توڑ کر اپنی گردنوں سے میری بیعت کا حلقہ اتارو گے تو میری زندگی کی قسم تم سے یہ بعید بھی نہیں، تم میرے باپ، بھائی اور میرے ابن عم کے ساتھ ایسا کر چکے ہو، وہ فریب خوردہ ہے، جو تمہارے فریب میں آ گیا تم نے نقص عہد کر کے اپنا حصہ ضائع کر دیا جو شخص عہد توڑتا ہے اس کا وبال اسی پر ہوتا ہے اورعنقریب خدا مجھ کو تمہاری امداد سے بے نیاز کر دے گا ،والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ۔۔
پھر امام حسین علیہ السلام نے اس خط کو تہہ کر کے اس پر مہر لگا دی، اور اسے قیس بن مسہر صیداوی کو دیا اور اسے کوفہ پہنچانے کا حکم دیا، لیکن عبید اللہ بن زیاد کی پولیس انھیں کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار لیا۔ جب قیس کو حصین بن تمیم نے راستے میں گرفتار کیا یہ وہ وقت تھا جب حضرت مسلم شھید ہوچکے تھے اور ابن زیاد نے سپاہ کو منظم کر دیا تھا اس لئے حضرت قیس اسیر ہو گئے۔
حصین نے حضرت قیس کو اسیر کر کے ابن زیاد کے پاس بھیجا ، ابن زیاد نے حضرت قیس سے اس خط کے بارے میں پوچھا اس پر حضرت قیس نے کہا وہ میں نے پھاڑ کر ختم کردیا، ابن زیاد نے پوچھا کیوں؟ حضرت قیس نے فرمایا : تاکہ تم کو پتا نہ چلے کے اس میں کیا تھا؟
ابن زیاد نے کہا اگر مجھے نہیں بتاتے تو پھر منبر پر جاؤ کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو، اس ملعون کا اشارہ امام حسین(ع) کی جانب تھا۔
اس کے بعد حضرت قیس منبر پر گئے اور کہا: اے لوگو بیشک حسین بن علی(ع) خدا کی سب سے بہترین مخلوق ہیں اور وہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ع) کے فرزند ہیں انھوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے بس ان کو لبیک کہو۔
اس کے بعد ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت کی اور حضرت علی امیرالمؤمنین(ع) پر درود بھیجا۔
ابن زیاد نے حکم دیا کہ قیس کو دارالامارہ سے نیچے پھینکا جائے، اس طرح امام حسین(ع) کے اس سچے سپاہی نے امام کو آخری سلام کیا اور شہادت کو گلے لگا لیا۔
جب حضرت امام حسین(ع) کو حضرت قیس کی شھادت کی خبر ملی تو امام(ع) نے قرآن کی اس آیۃ کی تلاوت کی فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ بس کچھ ایسے ہیں جو جان دے چکے اور کچھ منتظر ہیں۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: