شب عاشور کے دوران امام حسین(ع) اور ان کے اصحاب کے ساتھ پیش آنے والے اہم واقعات

تاسوعا یعنی نو محرم کا دن ڈھل گیا اور رات چھاگئی تو امام حسین(ع)نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں نہیں جانتا کسی کو جو میرے اصحاب سے زيادہ وفادار اور بہتر ہوں اور میں نہیں جنتا کسی کو جو میرے خاندان سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا اور نیکو کار ہو؛ اور چونکہ کل جنگ کا دن ہے چنانچہ میری طرف سے تم پر کوئی ذمہ نہیں ہے میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا دی، پس میں اجازت دیتا ہوں کہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ لو اور چلے جاؤ۔
امام(ع) کا کلام اختتام پذیر ہوا تو اصحاب و انصار یکے بعد دیگر اٹھے اور اور آپ کا ساتھ دینے پر زور دیتے ہوئے اپنی بیعت کی پابندی اور آپ سے مکمل وفاداری پر زور دیا اور آپ کے ساتھ بیعت میں ثابت قدمی کے سلسلے میں اظہار خیال کیا۔ سب سے پہلے ابوالفضل العباس(ع)اٹھے اور ان کے بعد ان کے سگے بھائی اور اہل بیت رسول(ص) کے دوسرے نوجوانوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے سیدالشہداء(ع)کی مدد و حمایت کے سلسلے میں خطاب کیا۔
امام(ع) اولاد عقیل سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: "اے فرزندان عقیل! مسلم کی شہادت تمہارے لئے کافی ہے، پس تم اٹھ کر چلے جاؤ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی!"، لیکن انھوں نے جواب دیا: "...خدا کی قسم! ایسا ہرگز نہیں کریں گے ہم اپنی جان اور مال اور خاندان کو آپ پر قربان کریں گے اور اور آپ کے ساتھ مل کر لڑیں گے..."
اہل بیت(ع) کے بعد مسلم بن عوسجہ، سعید بن عبداللہ حنفی، اور زہیر بن قین اور ان کے بعد دوسرے اصحاب نے شہادت تک آپ کے ہمراہ لڑنے اور آپ کی مدد کرنے پر تاکید کی۔
بعدازاں امام(ع) نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بے شک میں کل مارا جاؤں گا اور تم سب بھی ـ جو میرے ساتھ ہو ـ مارے جاؤگے"۔
اصحاب نے کہا: خدا کا شکر کہ اس نے ہمیں آپ کی نصرت کی توفیق دے کر عزت بخشی اور ہمیں آپ کے ساتھ شہادت پاکر شرف بخشا؛ اے فرزند دختر رسول(ص)! کیا آپ پسند نہیں کرتے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جنت کے ایک درجے میں ہوں۔

امام سجاد(ع) سے مروی ہے کہ امام حسین(ع)کے خطاب اور اصحاب کے پرجوش جواب کے بعد، امام(ع) نے ان سب کے حق میں دعا کی۔
اس رات بریر بن خضیر نے امام(ع) سے اجازت مانگی کہ جاکر عمر بن سعد کو نصیحت کریں۔ امام(ع) نے اجازت دی۔ بریر عمر بن سعد کی طرف گئے اور جب واپس آئے تو عرض کیا: "اے فرزند رسول خدا(ص) ابن بن سعد ملک رے کی حکمرانی کے عوض آپ کے قتل کے لئے تیار ہوا ہے"۔
عسکری اقدامات
امام حسین(ع) اس شب مؤثر عسکری اقدامات سے بھی غافل نہ تھے؛ مروی ہے کہ آپ آدھی رات اکیلے خیام سے باہر آئے اور اطراف کی بلندیوں اور پستیوں کا جائزہ لیا اور کل کے حملے سے قبل ضروری اقدامات انجام دیئے۔
اس رات حسین(ع) نے خیام کے ارد گرد خندق کھدوائی اور آپ کے ہدایت پر اس خندق کو لکڑیوں اور سوکھی جڑی بوٹیوں سے بھر دیا۔ آپ نے حکم دیا کہ دشمن کا حملہ شروع ہوتے ہی ان لکڑیوں اور خس و خاشاک کو آگ لگا دیں تاکہ جنگ کے دوران دشمن خیام کے عقب سے حملہ آور نہ ہوں اور حرم اہل بیت کی طرف دست اندازی نہ کرسکیں۔ یہ تدبیر عاشورا کے دن اصحاب حسین(ع)کے لئے بہت مفید رہی۔
نیز امام(ع) نے حکم دیا کہ اپنے خیمے ایک دوسرے سے ملا دیں اور ایک خیمے کی رسیاں دوسری خیموں کی رسیوں سے متصل کردیں اور انہیں اس طرح سے نصب کریں کہ خود خیام کے اندر ہوں [اور باہر سے کوئی خیام کے بیچ داخل نہ ہوسکے] اور صرف ایک طرف سے دشمن کا سامنا کریں اور خیام ان کی پشت پر اور دائیں اور بائیں اطراف میں واقع ہوں اور صرف وہی رستہ کھلا رہے جہاں سے دشمن آتا ہے اور باقی ہر طرف سے آنے والے رستے بند رہیں۔
اصحاب کا تجدید عہد
آدھی رات کو ابو عبداللہ الحسین(ع)اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو نافع بن ہلال جملی کو معلوم ہوا اور امام(ع) کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسین(ع) بہن زینب کبری(س) کے خیمے میں داخل ہوئے۔ نافع بن ہلال خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ زینب(س) نے بھائی حسین(ع)سے عرض کیا:
کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے اندیشہ یہ ہے کہ وہ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کی تحویل میں دےدیں"۔
امام(ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں دیکھا کہ سینہ سپر ہوگئے ہیں اس طرح سے کہ موت کو گوشۂ چشم سے دیکھتے ہیں اور میری راہ میں موت سے ـ ماں کے سینے سے طفل شیرخوار کی انسیت کی مانند ـ انسیت رکھتے ہیں۔
نافع نے محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسین آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ حبیب بن مظاہر اسدی سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر اہل بیتِ امام حسین کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسین(ع)کا دفاع کریں گے۔
حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام (ع) کو بلایا اور ان کے ہمراہ سونتی ہوئی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بآواز بلند کہا: "اے حریم رسول خدا(ص) یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں تا آنکہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہے۔
شب عاشورا امام(ع) نے اپنے بیٹے امام سجاد(ع) کی موجودگی میں اپنی بہن حضرت زینب کبری(س) کو صبر و بردباری کی تلقین کی۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: