ویسے تو محرم کا چاند نظر آتے ہی مومنین لاشعوری طور پر 61 ھجری میں پہنچ جاتے ہیں لیکن نو محرم کا دن گزرنے کے بعد مومنین کے احساسات اور شعوری کیفیت انھیں زمان ومکان سے مکمل طور پر آزاد کر کے میدان کربلا میں پہنچا دیتے ہیں۔
چودہ سو سال پہلے رونما ہونے والا سانحہ ان کے لیے ایسے ہو جاتا ہے کہ جیسے سب کچھ ان کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہو، شب عاشور، روز عاشور اور شام غریباں میں امام حسین(ع) اور ان اہل بیت(ع) کی مدد و نصرت کے لیے مومنین کا رواں رواں لبیک یا حسین لبیک یا حسین کی صدائیں بلند کر رہا ہوتا ہے، غم وحزن اور درد دل ودماغ پر حاوی ہوتا ہے۔
اگرچہ سب کو یقین ہے کہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے، اور امام حسین(ع) اپنے اعوان وانصار سمیت 61ہجری میں شہید کر دیئے گئے ہیں، ان کے خیموں کو آگ لگا کر وہاں سے سب کچھ لوٹ لیا گیا ہے، امام سجاد(ع) اور رسول کی بیٹیاں آسمان تلے بے یار ومدگار ہو چکی ہیں.....
لیکن روح کی گہرائیوں میں ایک پراسرار کیفیت ہے، جو انسان کے ظاہری حواس کی ترید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ امام حسین(ع) اور ان کی اہل بیت(ع) میدان کربلا میں انسانیت کی بقا کے لیے ہر باضمیر انسان کو پکار رہے ہیں ان کی ھل من ناصر کی پکار ایسے ہی انسانی روح اور ضمیر کی گہرائیوں میں سنائی دے رہی ہے کہ جیسے ہمارے مولا ہمیں ابھی پکار رہے ہیں۔
یہ جوش و جذبہ ہمیں بتا رہا ہے کہ حسینیت اور یزیدیت کے درمیان معرکہ ابھی جاری ہے اور ہم امام حسین(ع) کی صفوں میں کھڑے ہیں.....
میرا سلام ہو تاریخ کا رخ موڑنے والے حسین بن علی پر
میرا سلام ہو انسانیت کو مرنے سے بچانے والے حسین بن علی پر
میرا سلام ہو ...................