جناب ام کلثوم(س): تم نے رسول اللہ(ص) کے بعد امت کے بہترین لوگوں کو قتل کیا ہے

روایت میں ہے کہ مسلم جصاص بیان کرتا ہے کہ ابن زیاد نے مجھے دار الامارہ کی مرمت کے لیے بلایا ہوا تھا، میں وہاں اپنے کام میں مشغول تھا کہ اچانک کوفہ کے اطراف و جوانب سے شورو غل کی آوازیں آنے لگیں، اسی اثنا میں ایک خادم آیا، میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے آج کوفہ میں شور و غل ہو رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ابھی ابھی ایک خارجی کا سر لایا جا رہا ہے جس نے یزید پر خروج کیا تھا۔

میں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا؟ کہا حسین ابن علی(ع)۔ میں یہ سنتے ہی دم بخود ہو کر رہ گیا۔ جب خادم چلا گیا تو میں نے اپنے منہ پر ماتم کیا، قریب تھا کہ میری آنکھیں ضائع ہو جائیں۔ اس کے بعد میں ہاتھ منہ دھو کر دار الامارہ کی پچھلی طرف سے کناسہ کے مقام پر پہنچا جہاں لوگ سروں اور قیدیوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ایک قافلہ پہنچا جو چالیس اُونٹوں پر مشتمل تھا۔ جن پر اولاد حضرت فاطمة الزہراء(س) سوار تھی۔ ان میں کچھ بچے اور مستورات تھیں۔ امام زین العابدین (ع) بے پلان اُونٹ پر سوار تھے۔ رگہائے بدن سے خون جاری تھا اور آپ کی حالت بیماری اور ضعف کی وجہ انتہائی کربناک تھی۔ آلِ محمد کی خستہ تنی دیکھ کر اہل کوفہ صدقہ کی کھجوریں اور روٹیوں کے ٹکڑے بچوں کی طرف پھینکتے تھے۔ جناب امّ کلثوم اور بچے یہ کہہ کر کھجوریں وغیرہ نیچے پھینک دیتے تھے صدقہ ہم آل محمد حرام ہے۔ لوگ خاندانِ نبوت کی یہ حالت زار دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ اس موقع پر جناب امّ کلثوم (ع) نے فرمایا:

اے اہل کوفہ خاموش ہو جاؤ! تمھارے مرد ہمیں قتل کرتے ہیں اور تمھاری عورتیں ہم پر روتی ہیں۔ خداوند عالم روز قیامت تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔

مسلم کہتا ہے: یہ بی بی گفتگو کر رہی تھیں کہ اچانک صدائے شور و شغب بلند ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ (دوسری طرف سے) شہدائے کربلا کے سر نیزوں پر سوار لائے جا رہے ہیں۔ ان میں آگے آگے جناب امام حسین(ع) کا سرِ اقدس تھا اور وہ سر بدرِ کامل کی طرح تابندہ اور درخشندہ تھا۔ اور تمام لوگوں سے زیادہ رسول خدا(ص) کے ساتھ مشابہ تھا۔ ریش مبارک خضاب کی وجہ سے بالکل سیاہ تھی۔ چہرہ انور ماہتاب کی مانند مدوّر اور روشن تھا اور ہوا ریش مبارک کو دائیں بائیں حرکت دے رہی تھی۔ جب جناب زینب عالیہ کی اپنے بھائی کے سر مبارک پر اس حالت میں نظر پڑی تو اس منظر سے بیتاب ہو کر فرط غم و الم سے چوبِ پالان پر اس زور سے سر مارا کہ خون جاری ہو گیا۔

راوی بیان کرتا ہے کہ اس موقع پر جناب ام کلثوم بنت امیر المومنین(ع) ان سے مخاطب ہوئیں اور بعد حمد و ثناء کے یہ خطبہ دیا:
اے اہل کوفہ ! تم نے کتنا قبیح عمل انجام دیا ہے. تمہیں کیا ہو گیا کہ تم نے حسینؑ کو تنہا چھوڑ دیا اور انھیں شہید کردیا اور ان کے بعد ان کا مال لوٹ لیا اور اسے آپس میں بانٹ لیا . پھر ان کی عورتوں اور ناموس کو اسیر کیا۔ پس تم پر بربادی اور ذلت مسلط ہو. اور تم پر ہلاکت ہو۔۔۔۔۔
جانتے ہو کہ تم نے کتنے بڑے بوجھ کو اپنی پیٹھ پر اٹھایا ہے اور کتنے بڑا دھوکہ تم نے خود سے کیا ہے؟
تمہیں احساس بھی ہے کہ کون سا عظیم خون تم نے بہایا اور کس کی ناموس کو تم نے در بدر کیا ہے؟
تم جانتے بھی ہو کہ یہ کس کی بچیاں تھیں جن کے تم نے مال لوٹے اور انہیں قیدی بنایا ہے؟
بلاشبہ ! تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد امت کے بہترین لوگوں کو قتل کیا ہے اور تمہارے دلوں سے رحمت چھین لی گئی ہے
یاد رکھو. اللہ کی جماعت ہی کامیاب اور نجات یافتہ ہیں اور شیطانی گروہ کا مقدر شکست و رسوائی ہے .
پھر آپ نے یہ اشعار پڑھے
( تم نے میرے بھائی کو قتل کر دیا .پس اللہ تمہیں ہلاک کرے عنقریب تم آتش دوزخ میں جلو گے . تم نے ایسے خون کو بہایا ہے جسے بہانے کو اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا تھا. پھر نبی اکرم.ص. اور قرآن نے بھی ناحق خون بہانے سے تمہیں روکا تھا.
اب میں تمہیں خبر دیتی ہوں کہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے آتش جہنم میں جلنے کیلیے آمادہ ہو جاو. بیشک اب جہنم ہی تمہارا ٹھکانہ ہے.
میں اپنے بھائی پر باقی ساری زندگی روتی رہوں گی جو نبی اکرم .ص. کے بعد روۓ زمین پر سب سے زیادہ فضیلتوں کے مالک تھے.
ام کلثوم حسینؑ پر ایسا گریہ کرے گی کہ یہ آنسو اب کبھی نہ تھمیں گے )
راوی کا بیان ہے. جناب ام کلثوم کے خطبے سے ان کے گریہ میں مزید شدت پیدا ہوئی .
ان کی عورتیں سروں کے بال کھولے گالوں پر خاک ڈالے منہ نوچتی ہوئی حسینؑ اور ان کے اصحاب و اہل بیت کی مظلومیت پر رو رہی تھیں.
ان کے مرد شدت غم سے اپنا چہرہ پیٹ رہے تھے اور اپنی داڑھیاں اکھیڑتے تھے
اس دن جس قدر لوگوں کو روتے دیکھا گیا اس طرح کبھی پہلے ایسا نہ دیکھا گیا.
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: