امام سجاد(ع) کا اہل کوفہ سے خطاب اور ابن زیاد کو لافانی جواب

جب اسیران کربلا کو کوفہ میں لایا گیا تو وہاں انھیں دیکھنے والوں نے ایک شور بپا کر رکھا تھا اس وقت امام زین العابدین(ع) نے انہیں خاموش ہونے کا حکم دیا جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو امام سجاد علیہ السلام نے خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اسلام پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا:

اے لوگو ! جو شخص مجھے پہچانتا ہے، وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو شخص نہیں پہچانتا میں اسے اپنا تعارف کرائے دیتا ہوں میں علی ابن الحسین ہوں۔ وہ حسین جو بلا جرم و قصور نہر فرات کے کنارے ذبح کیا گیا۔میں اس کا بیٹا ہوں جس کی ہتک عزت کی گئی ، جس کا مال و منال لوٹا گیااور جس کے اہل و عیال کو قید کیا گیا۔ میں اس کا پسر ہوں جسے ظلم و جور سے درماندہ کر کے شہید کیا گیا اور یہ بات ہمارے فخر کے لئے کافی ہے۔ اے لوگو ! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں،کیا تم نے میرے پدرِ عالی قدر کو دعوتی خطوط لکھ کر نہیں بلایا تھا ؟ اور ان کی نصرت و امداد کے عہد و پیمان نہیں کئے تھے ؟ اور جب وہ تمہاری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تشریف لائے تو تم نے مکر و فریب کا مظاہرہ کیا اور ان کی نصرت و یاری سے دست برداری اختیار کر لی۔ اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ قتال کر کے ان کو قتل کر دیا۔ہلاکت ہو تمہارے لئے کہ تم نے اپنے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیااور برائی ہو تمہاری رائے اور تدبیر کے لئے! بھلا تم کن آنکھوں سے جناب رسول اکرم کی طرف دیکھو گے،جب وہ تم سے فرمائیں گے کہ تم نے میری عترت اہل بیت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی اس لئے تم میری امت سے نہیں ہو۔

راویان اخبار کا بیان ہے کہ جب امام کا کلامِ غم التیام یہاں تک پہنچا تو ہر طرف سے لوگوں کے رونے اور چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور ہر ایک نے دوسرے کو کہنا شروع کیا: ھلکتم وما تعلمون یعنی تم بے علمی میں ہلاک و برباد ہو گئے ہو۔ امام سجادنے پھر سے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے فرمایا:

خدا اس بندے پر رحم کرے جو میری نصیحت کو قبول کرے اور میری وصیت کو خدا و رسول اور اہل بیت رسول کے بارے میں یاد رکھے کیونکہ تمہارے لئے رسول خدا کی زندگی میں اعلیٰ ترین نمونہ موجود ہے۔

سب نے یک زبان ہو کر کہا :

یابن رسول اللہ سب آپ کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ آپجو حکم دیں گے ضرور اس کی تعمیل کی جائے گی۔ ہم آپ کے دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہیں۔

امام سجاد نے ان کا یہ کلامِ فریب انضمام سن کر فرمایا:

ھیھات اے گروہِ مکاراں و عیاراں!اب تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ اب تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک کرو جو میرے اب و جد کے ساتھ کر چکے ہو ؟ حا شا و کلا ۔ ایسا اب ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بخدا ! ابھی تک تو سابقہ زخم بھی مندمل نہیں ہوئے۔ کل تو میرے پدر عالی قدرکو ان کے اہل بیت کے ساتھ شہید کیا گیا، ابھی تک تو مجھے اپنے اب و جد اور بھائیوں کی شہادت کا صدمہ فراموش نہیں ہوا۔ بلکہ ان مصائب کے غم و الم کی تلخی میرے حلق میں ابھی موجود ہے اور غم و غصہ کے گھونٹ ابھی تک میرے سینہ کی ہڈیوں میں گردش کر رہے ہیں۔ ہاں تم سے صرف اس قدر خواہش ہے کہ نہ ہمیں فائدہ پہنچاؤ اور نہ ہی نقصان

جب اسیرانِ کربلا کا قافلہ ابن زیادہ ملعون کے دربار میں لایاگیا تو اس لعین نے امام سجاد(ع) کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ یہ علی بن حسین(ع) ہے۔ تو ابن زیادہ لعین کہتا ہے: علی بن حسین کو تو اللہ نے قتل نہیں کردیا؟ یہ سننا تھا کہ امام سجاد(ع) نے نہایت شجاعت اور بغیر کسی خوف و ڈر کے گرجتی ہوئی آواز میں اس ملعون سے کہا: میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی بن حسین ہے لوگوں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ اس لہجے میں یہ جواب سن کر ابن زیادہ ملعون نے کہا:لوگوں نے نہیں بلکہ اسے اللہ نے قتل کیا ہے۔ امام سجاد(ع) نے رسول خدا(ص) سے ورثے میں ملنے والی دانائی اور امیر المومنین(ع) کی شجاعت کے ساتھ اس ملعون کو اپنے دلیرانہ لہجے میں کہا: اللہ تو موت کے وقت روحوں کو قبض کرلیتا ہے،اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔ ابن زیادہ ملعون نے جب یہ جواب سنا تو اس نے کہا: تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھے جواب دیتے ہو، پھر اس ملعون نے جلادوں سے کہا: اسے لے جا کر اس کی گردن اڑا دو۔ اس ملعون کی یہ بات سنتے ہی حضرت زینب(ع) نے بڑھ کر فرمایا: اے ابن زیاد تو ہم سے میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا، اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ مجھے بھی قتل کر دو۔ امام سجاد(ع) نے فرمایا: اے میری پھوپھی جان آپ مجھے اس سے بات کرنے کی مہلت دیں۔ پھر امام سجاد(ع) نے ابن زیاد ملعون کو مخاطب کر کے اپنے علوی لہجے میں فرمایا: اے ابن زیاد کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دیتے ہو؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ قتل ہو جانا تو ہماری عادت ہے اور شہادت تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے عطا کردہ سعادت ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: