امام سجاد(ع) کی شہادت کا پرسہ پیش کرنے کیلئے روضہ مبارک امام حسین(ع) اور حضرت عباس(ع) میں ماتمی جلوسوں کی آمد.....

25محرّم الحرام 1441هـ کو نماز ظہر کے بعد سے حضرت امام زین العابدین(ع) کی المناک شہادت کا پرسہ پیش کرنے کے لیے روضہ مبارک حضرت امام حسین(ع) اور حضرت عباس(ع) میں ماتمی جلوسوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا کہ جو بغیر وقفے کے اب تک جاری ہے۔

اس المناک شہادت کا پرسہ پیش کرنے کے لیے آنے والے جلوس عزاء شارع قبلہ سے روضہ مبارک حضرت عباس(ع) میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں عزاداری اورپرسہ پیش کرنے کے بعد مابین الحرمین سے ہوتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام کو ان کے بیٹے کی شہادت کا پرسہ پیش کرنے کے لیے روضہ مبارک امام حسین(ع) میں داخل ہو جاتے ہیں اور وہاں ماتم داری کے بعد اکثر جلوس وہیں اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف ، روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کی جانب عزائی جلوسوں کا استقبال کرنے اور بھیڑ سے بچنے کے لئے خصوصی انتظامات اور تیاریاں کی گئیں تھیں۔
واضح رہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت کے حوالے سے روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے صحن میں ماتم داری اور مجالس عزاء کا سلسلہ جاری ہے کہ جس میں ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ حضر ت امام سجاد(ع) نے اپنے کردار و عمل سے ظالموں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا امام سجاد (ع) کبھی تو اپنے مظلوم بابا حضرت امام حسین(ع) کی شہادت اور سانحہ کربلا کے مصائب پر گریہ کرتے،کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے اور کبھی اپنے کردار و عمل کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی رہنمائی کرتے۔۔۔۔۔۔
حضرت امام سجاد(ع) کے طرز عمل سے لوگوں کو امام حسین(ع) اور اہل بیت رسول(ص) کی مظلومیت سے آگاہی مل رہی تھی، نسل در نسل اہل بیت کے حقوق کو غضب کرنے والوں کے اصل چہرے لوگوں پہ عیاں ہو رہے تھے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانوں کی بجائے اہل بیت کا اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
اور یہی وہ بات تھی جس نے بنی امیہ کے لیے حضرت امام سجاد(ع) کے مقدس وجود کو خطرہ بنا دیا تھا اور وہ نبوت کی نیابت میں جلنے والی اس شمعِ امامت کو بجھانے کے درپے ہو گئے، آخر میں اس ظلم کو ڈھانے کی ذمہ داری ولید بن عبدالملک اور بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبد الملک کو سونپی گئی کہ جس نے ایک کھانے میں زہر ملا کر حضرت امام سجاد(ع) کو کھلا دیا۔
جب امام سجاد(ع) کے بدن میں زہر سرایت کر گیا اور آپ کو اپنی شہادت کا یقین ہو گیا تو آپ(ع) اپنے بیٹے امام محمد باقر(ع) کے پاس آئے اور انھیں چند وصیتیں فرمائی اور پھر فرمایا: اے میرے فرزند آگاہ ہو جاؤں میں عنقریب تم سے جدا ہونے والا ہوں، اور موت قریب آ چکی ہے اور ولید جو میرے ساتھ کرنا چاہتا تھا اس نے کر دیا ہے۔
امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں کہ میرے بابا نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: اے میرے فرزند! میں تمہیں وہ وصیتیں کرنا چاہتا ہوں جو میرے بابا نے مجھے اس وقت کی تھیں جب ان کی وفات کا وقت قریب آ گیا تھاپھر امام نے کچھ وصیتیں فرمائی کہ جن میں یہ وصیت بھی تھی کہ:اے بیٹا! خبردار کسی ایسے پر ظلم نہ کرنا جس کا خدا کے علاوہ کوئی مددگار نہ ہو۔ وصیتیں کرنے کے بعد تین مرتبہ امام سجاد(ع) پر غش طاری ہوا، پھر آنکھیں کھول کر امام سجاد(ع) نے یہ پڑھا : "اذا وقعت الواقعۃ" "انا فتحنا لک فتحا مبینا" پھر فرمایا: تمام تعریفیں اس معبود کے لیے ہیں کہ جس نے ہم سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں زمین کا وارث قرار دیا، ہم بہشت میں جس مکان میں چاہیں رہیں، تو اچھے عمل کرنے والوں کا اجر کتنا ہی اچھا ہے۔ اس کی بعد امام سجاد(ع) کی روح پرواز کر گئی اور امام سجاد(ع) نے انتہائی مظلومیت کے عالم میں 25محرم الحرام 95ہجری کو اس بے وفا دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: