قبائلی سرداروں کا امام حسین علیہ السلام پر مصائب پر الگ اظہارِ حزن کا انداز۔

کربلاآج بھی محبانِ اھل بیت اور امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں کی لئے انتہائِ طریق اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے پوری دنیا میں موجود اھل بیت علیھم السلام کے چاہنے والوں کے دلوں میں کربلا ہمیشہ کے لئے زندہ ہے کربلا کے سانحہ اور امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر اھل بیت علیھم السلام کے شیعوں اور باضمیر شخص کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔
کربلا کے مصائب پر اظہارِ غم و حزن کا ہر ایک کا اپنا طریقہ ہے دنیا کے ہر خطے کے مؤمنین اپنے رسم و رواج اور طور طریقے کے مطابق امام حسین علیہ السلام کا غم مناتے ہیں اور ماتم و عزاداری میں اپنی ذاتی شخصیت کو بھول کر مکمل عقیدت و احترام اور بھر پور انداز میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری برپا کرتے ہیں۔
عرب باشندوں کا اصل لباس لمبا کرتہ ہے کہ جسے توپ یا دشداشہ یا جبہ کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ عرب اپنے سروں پر تکونی رومال رکھتے ہیں اور اس رومال کے اوپر ایک رسی نما مختلف اشکال کے پٹی باندھتے ہیں کہ جسے عراق میں عقال کہا جاتا ہے یہ عقال عرب باشندوں کی عزت و شرف اور اہمیت کی علامت شمار ہوتا ہے اور خاص طور پر عربی قبائل اور ان کے سردار اپنے عقال کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
محرم کے دوسرے عشرہ کے دوران کربلا کے مقدس روضوں میں پُرسہ دینے کے لئے آنے والے ماتمی جلوسوں میں آج ایک منفرد جلوس روضہ مبارک میں داخل ہوا یہ جلوس بابل کے شہر حمزہ غربی کے قبائلی سرداروں اور قبائلی باشندوں کا تھا کہ جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر اظہارِ حزن کے لئے اپنے عقال اور اپنے سروں پر رکھے رومالوں کو اپنے گلوں میں ڈال رکھا تھا اور اپنے قبائل میں اپنی عزت و شرف کی رمز اور علامت کو یوں گلے میں ڈال کر وہ سانحہ کربلا کے مصائب کے غیر معمولی اور ناقابل برداشت ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: