آٹھ ذی الحج: احرامِ حج کھول کر امام حسین(ع) کی کربلا کی جانب روانگی

امام حسین(ع) اٹھائیس رجب کو رات کے وقت اپنے خاندان اور اصحاب کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں امام حسین(ع) کے اکثر عزیز و اقارب (منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے) آپ کے ساتھ تھے۔

امام حسین(ع) پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔

مکہ میں قیام کے دوران امام حسین(ع) کی رہائشگاہ میں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا آپ لوگوں کو حقیقی اسلام کی تعلیمات اور بنو امیہ، یزید اور ان کو خلافت کی کرسی تک پہنچانے والوں کے بارے میں آگاہ کرتے۔

شیعیان عراق کو معاویہ کی موت کی خبر ملی تو وہ سليمان بن صُرَد خزاعی کے گھر میں جمع ہوئے اور امام حسین(ع) کے لئے خط لکھ کر آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ انھوں نے خط عبداللہ بن سَبعِ ہَمْدانى اور عبداللہ بن وال ہاتھوں مکہ روانہ کیا جو 10رمضان کو مکہ میں امام حسین(ع) کوملا۔ اس کے بعد آپ کو کوفیوں کے ہزاروں خطوط موصول ہوئے جن میں انہوں نے آپ(ع) سے کوفہ آنے کی درخواست کی۔

امام(ع) نے کوفیوں کے نام ایک خط دے کر اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو عراق روانہ کیا تاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور آپ کو حالات کی خبر دیں۔ جناب مسلم 5 شوال کو کوفہ پہنچ کر مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر میں مقیم ہوئے۔ شیعیان کوفہ مسلم کی آمد سے مطلع ہونے کے بعد ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ 18000 افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جناب مسلم نے اہل کوفہ کے ان تمام حالات سے امام حسین علیہ السلام کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا۔

اسی دوران یزید نے اپنے مشیر سرجون نصرانی سے مشورہ کیا اور اس کے مشورے پر کوفہ اور بصرہ کی حکومت ابن زیاد کے سپرد کردی۔ ابن زیاد بھیس بدل کر کوفہ میں داخل ہوا اور دارالعمارہ پہنچ کر اپنا تعارف کرایا۔ ابن زیاد ڈرا دھمکا کر اور لالچ دے کر اہل کوفہ کو جناب مسلم کی مدد سے روکنے میں کامیاب ہو گیااور آخر میں جناب مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا۔

احرامِ حج کھول کر امام حسین(ع) کی کربلا کی جانب روانگی

یزید ملعون نے عمرو بن سعید بن عاص کو ایک لشکر کے ساتھ حاجیوں کے لباس میں بھیجا اور اسے حکم دیا کہ اگر امام حسین علیہ السلام خانہ کعبہ کے پردوں میں بھی ہوں تب بھی انہیں قتل کردو۔ امام حسین علیہ السلام تک جب یہ خبر پہنچی تو آٹھ ذی الحجہ کو آپ نے اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور احرامِ حج کھول دیئے تاکہ ان کے قتل سے کعبہ اور ماہِ حج کی حرمت پامال نہ ہو اور دوسری طرف جناب مسلم علیہ السلام کی طرف سے بھی امام حسین علیہ السلام کو ایک خط مل چکا تھا کہ جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوفہ والے جان و مال کے ذریعے فرزندِ بتول کی مدد و نصرت کے لیے تیار ہیں اور اپنے ملک میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی حکومت کی مثل حکومت قائم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پس حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئے کہ جن کو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے اہلِ بیت علیھم السلام کے جوانوں نے گھیر رکھا تھا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: