واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر مولا امام حسین علیہ السلام کے با وفا ،بہادرفرزندان اور اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جس کو انسانیت کی تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، لیکن دین اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ مقصد واقعہ کربلا کو اپنی منزل مقصود تک پہنچانے میں خواتین کربلا کے کئی بے نظیر ولاثانی کردار ہیں۔یہاں پر یہ جملہ لکھا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ حادثہ کربلا میں اگر یہ عظیم خواتین نہ ہوتیں تو حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد قربانی ادھورا ہی رہ جاتا۔
انقلاب حسینی کے آسمان پر چمکنے والی خواتین کے ناموں میں سے ایک نام ماریہ بنت منقذ العبدی ہے۔ ماریہ بنت سعد عبدیه بصریه؛ دختر منقذ جو عبدیہ بصریہ کے نام سے مشہور ہیں اور بصرہ کی با اخلاص شیعہ خواتین میں سے تھیں، ان کا گھر محبین و شیعیان اہلبیتؑ نیز اصحاب امام حسینؑ کیلئے اجتماع و شیعوں کے مذاکرات و تحریک کے منظم ہونے کا مرکز تھا، جس وقت یہ خبر ابن زیاد کو پہونچی تو اس نے حکم دیا کہ انہیں روکیں اور راہوں کو بھی بند کر دیں۔
جب امام حسینؑ کا خط آن کے غلام سلیمانؑ کے ذریعہ اس خاتون کو ملا تو سب سے پہلے جس نے اس کا مثبت جواب دیا وہ یزید بن ثُبَیط بصری ہی تھے جو ماریہ کے گھر میں امام حسینؑ کے پیغام سے آگاہ ہوئے، اس کے 10 فرزندوں میں سے صرف 2 ہی بیٹے عبد اللہ و عُبَید اللہ حاضر ہوئے اپنے والد کے ساتھ امامؑ کی فوج سے ملحق ہوئے یہ لوگ مکہ میں امام حسینؑ کی تحریک میں شامل ہوئے اور تینوں ہی کربلا میں شہید ہوئے. ماریہ کی جد و جہد کے باعث دوسرے افراد جیسے ادہم بن امیہ بھی یزید بن ثُبَیط کے ہمراہ بصرہ سے مکہ آئے اور امامؑ سے ملحق ہوئے۔
ماریہ کے شوہر اور فرزند جنگ جمل میں امام علیؑ کی راہ میں شہید ہوئے تھے، ماریہ جو کہ ایک ثروتمند خاتون تھیں جنہون اپنی تمام دولت کو اہلبیتؑ عصمت و طہارت کے نورانی معارف کی نشر و اشاعت اور تحریک عاشورا کی ترویج کیلئے وقف کر دیا اور اس راہ میں کسی بھی سعی و کوشش سے دریغ بھی نہیں کیا۔