انقلاب حیسنی کے آسمان پر چمکنے والے درخشاں ستاروں میں سے ایک جناب طوعۃ الکوفیہ ہیں۔

واقعہ کربلا کی تاریخ بے مثل و بے مثال خواتین سے بھری ہوئی ہے،جو واقعی تاریخ کا فخر ہیں، کیونکہ ان کا تعلق سرچشمہ امامت سے ہے، اور وہ تمام خواتین جنہوں نے خاندان پیغمبرکی حمایت کی اور ان کے ساتھ کھڑی ہوئیں، ان کا کردار دوسری خواتین سے مختلف ہے۔ پس وہ اسلام کے لائے ہوئے بہترین انسانی تصورات پر ایمان کے ساتھ قائم رہیں اورانہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ حق و باطل کے اس لافانی معرکہ میں اپنا حصہ ڈالا اور ہمیشہ کے لئے امر ہو گئیں۔
انقلاب حیسنی کے آسمان پر چمکنے والے ان درخشاں ستاروں میں سے ایک جناب طوعۃ الکوفیہ ہیں۔ طَوعَہ اس مؤمنہ عورت کا نام ہے جو امام علی علیہ السلام کے دور میں کوفہ میں رہتی تھیں اور ان تمام ناانصافیوں کی گواہ تھیں جو علوی گھرانے سے امام علی علیہ السلام کی شہادت سے لیکر امام حسن علیہ السلام کی خلافت چھننے، معاویہ کی فاسد حکومت کا مقابلہ کرنےاور واقعہ کربلا تک کی گئیں تھیں۔ آپ نے کوفہ میں سفیر امام حسین علیہ السلام حضرت مسلم بن عقیل کو دشمنوں کی چالوں سے بچایا اور ان کے دفاع کے لئے اپنی جان پر کھیلنے سے دریغ نہیں کیا۔

جناب طوعۃ الکوفیہ وہ عظیم خاتون ہیں جنہوں نے انقلاب حسینی کے پہلے جانثار جناب مسلم کو اس وقت پناہ دی جب وہ کوفہ میں بے یارو مددگار اور تنہارہ گئے تھے۔کیونکہ کوفیوں نے ظالم یزید اور اس کے معاونین کے خوف سے امام حسین علیہ السلام سے کئے گئے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا تھا۔ .
جب اہل کوفہ کے اصرار پر حسین بن علی علیہ السلام نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں کے حالات کا معاینہ کرنے کے لیے بھیجا۔ شروع میں کوفہ والوں نے آپ کا استقبال کیا لیکن پھر اموی گورنر کے سخت تیور دیکھ کر اپنے عہد سے پھر گئے اور چُھپنے لگے۔ بہر حال مسلم بن عقیل جب نمازمغرب سے فارغ ہوئے، دیکھا کہ سب لوگ منتشر ہو کر چلے گئے ہیں، باہر نکل کر دیکھا وہاں بھی کوئی موجود نہیں تھا۔ کوفہ کی گلیوں میں ٹہلنے لگے اور پناہ ڈھونڈنے لگے، تھک کر ایک گھر کے سایہ میں بیٹھ گئے، وہی گھر طوعہ کا تھا۔ طوعہ نے جب اپنے بیٹے کی راہ دیکھنے لیے دروازہ کھولا تو وہاں ایک مسلم مسافر کو پایا۔ تعارف و تعریف پوچھنا چاہی تو انھوں نے بتایا: "ایک اجنبی مسافر ہوں، تھکن سے نڈھال ہو کر بیٹھ گیا ہوں." پیاس کی وجہ سے پانی مانگا، خاتون نے پانی پیش کیا، اور تعارف پر اصرار کرنے لگی، تب مسلم بن عقیل نے حقیقت واقعہ سے مطلع کیا۔ اس خاتون نے آپ کو پہچاننے کے بعد اپنے گھر پناہ دینے کی پیشکش کی آپ نے اسے قبول کیا۔ لیکن طوعہ کے بیٹے نے اپنے گھر میں مسلم کی موجودگی کی خبرعبد الرحمان بن محمد بن اشعث کو دی ۔


طوعہ کے پاس اب کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے مسلم بن عقیل سے معافی مانگی اور انھیں الوداع کرتے ہوئے کہا: خدا آپ پر رحم کرے اور آپ کو اس کا بہترین اجر دے۔

یوں جناب طوعۃ الکوفیہ انقلاب حسینی کی ابتداء ہی میں اس لازوال تحریک کا حصہ بن گئیں اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے جرات، ایثار، قربانی اور حق پرستی کی مثال بن گئیں۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: