کربلا میں سب عزادار جناب مسلم بن عقیل(ع) کی شہادت کا پُرسہ ان کے دونوں چچا زاد بھائیوں کو پیش کر رہے ہیں

عراق اور بہت سے دیگر ممالک میں عشرہ محرم کا ہر دن امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے کسی ایک کے ساتھ مختص ہے کہ جس میں اس صحابی کی سیرت اور شہادت کے بارے میں مجالس عزاء میں گفتگو کی جاتی ہے۔
کربلا میں عزادار پانچ محرم کی رات میں امام حسین علیہ السلام کے سفیر جناب مسلم بن عقیل (ع) کی شہادت کا پُرسہ پیش کرتے ہیں اور کربلا کے مقدس روضوں میں آ کر حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کی بارگاہ میں ان کے چچا زاد بھائی کی المناک شہادت پر ماتم داری برپا کرتے ہیں۔
اور اسی حوالے سے آج روضہ مبارک حضرت امام حسین علیہ السلام اور روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام میں ماتمی جلوسوں کی بڑی تعداد نے حضرت مسلم بن عقیل(ع) کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا:
دوّن التاريخ مسلم بالبسالة ... بصفحة نضاله
شعلة الحرية ضوت والعدالة ... بصفحة نضاله
راية رافع بيها تثبيت السفارة
بسيفة هز الكوفة رج قصر الأمارة
يا هله بمسلم وزودة
واضح رہے کہ حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی، مرد حق، جری اور اسلام میں امام علیہ السلام کے حقیقی آشنا تھے۔ آپ اسلامی فتوحات اور جنگ صفین وغیرہ میں شریک رہ چکے تھے اور جب امام حسین علیہ السلام نے بیعت یزید کوٹھکرا کر مدینہ کو خدا حافظ کہا توآپ بھی امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ مکہ تک تشریف لائے، مکہ میں امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کے خطوط موصول ہوئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ہے آ پ تشریف لائیے ہوسکتا ہے آپ ہماری ہدایت کا سبب بنیں۔
امام حسین علیہ السلام کوفہ کی تہذیب اور وہاں کے لوگوں کی بدلتی ہوئی طبیعت اور مفاد پرستی کو بخوبی جانتے تھے ، کیونکہ اسی کوفہ میں آپ کے پدر بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا ۔ایسے شہر کے لئے کسی مخلص اورتجربہ کار شخص کی ضرورت تھی کہ جولحظہ بہ لحظہ رنگ بدلنے والے افراد سے شکست نہ کھا سکے اور اپنے مقصد کے حصول سے ہنگامی حالات میں بھی غافل نہ رہے ۔امام حسین علیہ السلام نے اپنے مختصر قافلہ پر نظر ڈالی اور مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ منتخب فرماکر کوفہ روانہ کردیا۔
امام (ع) کا خط اہل کوفہ کے نام

جناب مسلم بن عقیل (ع) کی روانگی سے قبل امام نے سعید اور ہانی بن عروہ کے ہاتھ ایک خط اہل کوفہ کے نام اس مضمون کا ارسال کیا یہ لوگ یعنی سعید وہانی بن عروہ تمہارے خطوط لے کر پہنچے تمہاری تحریر کومیں نے غور سے پڑھا تمہاری بات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ تمہارا کوئی امام نہیں ہے لہذا تم مجھے بلا رہے ہو ،سردست میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں یہ میرے معتمد ہیں اور میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے تمہارے حالات کی اطلاع دیں گے اگر انہوں نے اطلاع دی کہ کوفہ کے سربرآوردہ افراد اس بات پر متفق ہیں تو میں آجاؤں گا ۔واضح رہے امام کتاب خدا پرکامل عدالت کا پابند ــحق اور مرضی معبود کاہمہ وقت خواستگار ہوتا ہے۔ والسلام حسین بن علی بن ابی طالب
جناب مسلم مکہ سے مدینہ تشریف لائے اور روضہ رسول میں نماز اداکرکے صبح ہوتے ہی کوفہ کی سمت سفر کا آغاز کردیا۔راستہ کی مشکلا ت برداشت کرتے ہوئے مدینہ سے کوفہ پہنچے اور مختار بن عبید ثقفی کے گھر قیام پذیر ہوئے ۔ جناب مسلم کی آمد کی خبر سن کر اہل کوفہ مختار کے گھر میں جمع ہوئے آپ نے امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھ کرسنایا تولوگ جوش محبت وعقیدت سے رونے لگے۔اوربعض بااثر عقیدت مندوں نے کھڑے ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اپنی نصرت کا یقین دلایا اسکے بعد لوگ آپ کے ہاتھوں پرامام حسین (ع)کی بیعت کرنے لگے۔ اگرچہ جناب مسلم نے ان لوگوں سے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن جب وہ بہ رضا ورغبت بیعت کرنے لگے تو آپ نے ان سے اس طرح بیعت لی جس طرح رسول نے قبیلہ خزرج و غیرہ سے بیعت لی تھی بیعت کے الفاظ یہ تھے ؛کتاب خدا وسنت رسول کی طرف دعوت ، ظالموں اورسرکشوں سے جہاد ،مستضعفین سے دفاع ،محروموں کے حقوق کی بازیابی ،غنائم کی صحیح تقسیم اور اہل بیت کی نصرت۔
بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اختلاف ہے اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بیعت ایک ہی روزنہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا سلسلہ کم وبیش ایک ماہ جاری رہا تھا ۔اسی لئے بیعت کرنے والوں کی تعداد معین نہیں کی جا سکتی۔
لیکن جب ابن زیاد ملعون کوفہ کا گورنر بن کر آیا تواس نے اہل کوفہ سے کہا : شام سے بہت جلد لشکر آنے والا ہے ،جو تم کو تباہ وبرباد کردے گا نیز تمہاری جان اور آبرو بھی محفوظ نہ رہ سکے گی ۔چنانچہ وہ افرادجنہوں نے ابن زیاد کا کلا م سنا تھا ، وہاں سے نکل کرمہاجرین کے اہل خانہ کے پا س پہنچے اوران کی ماں بہنوں اوربیویوں کوورغلایا کہ تمہارے وارثوں کو شام کا لشکر آکر تہہ تیغ کردیگا اورلشکر آنے ہی والا ہے عورتوں کا دل اپنے وارثوں، بھائیوں بھتیجوں کے قتل سے لرزنے لگا اوربے تحاشا گھروں سے نکل پڑیں اور اپنے اپنے عزیزوں کے دامن پکڑ کر فریادیں کرنے لگیں جن سے مہاجرین کے دل بھی کانپنے لگے کچھ تو انہیں عورتوں کے ساتھ چلے گئے اور کچھ موقع دیکھ کر فرار ہوگئے اورجناب مسلم وہا ں پہنچے تو بہت مختصر افراد کوموجود پایا شام ہوتے ہی آپ کے پا س صرف ٣٠افراد بچے تھے اسی قلیل تعداد کے ساتھ آپ نے نماز مغربین ادا کی نماز کے بعد ان میں سے بھی دس فرار ہوچکے تھے مسلم مسجد سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ کے ساتھ دس ہی افراد رہ گئے ہیں انہیں لوگوں کے ہمراہ آپ باب کندہ کی طرف روانہ ہوئے مسلم محلہ کندہ میں جس وقت پہنچے تواپنے کو تنہا پایا اب آپ کے ہمراہ کوئی راستہ بتانے والا بھی نہ تھا اورابن زیاد کی دھمکی آمیز تقریر سے کوفہ میں سناٹا چھایا ہوا تھاہر ایک کے
مکان کا دروازہ بندنظر آتا تھا مسلم کی نگاہ ایک عورت پرپڑی جواپنے دروازہ
پر کھڑی اپنے بیٹے کا انتظار کررہی تھی چونکہ مسلم پر پیاس کا شدید غلبہ
تھا اوردوسری طرف کوفیوں کی غداری کے احساس نے بھی کافی متاثر کر دیاتھا آپ
نے اس عورت کے پاس جاکر سلام کیا اور کہا میں پیا سا ہوں مجھے پانی
پلادو۔اس عورت کانام طوعہ تھا جو پہلے محمدبن اشعث کی کنیز تھی اور آزادی
کے بعد اسید حضرمی کے نکاح میں آگئی تھی اس سے ایک لڑکا بلال پیدا ہوا وہ
اسی لڑکے کا انتطار کررہی تھی طوعہ اندر سے پانی لائی مسلم نے پانی پیا پھر
وہ کاسہ رکھنے اندر چلی گئی اور جب لوٹ کر آئی تو دیکھا کہ وہ شخص دروازے
ہی پر بیٹھا ہوا ہے طوعہ نے کہا اے بندہ خدا کیا میں نے تمہیں پانی نہیں
پلایا ؟ اس کے بعد فوراً حضرت مسلم سے کہا : تم اب اپنے گھر کیوں نہیں جاتے
؟
مسلم خاموش رہے اس نے دوتین مرتبہ کہا تومسلم نے جواب دیا! اے کنیز خدا
میرا اس شہر میں کوئی گھر نہیں ہے کیا تم اپنے گھر میں مجھے پناہ دے کر
ثواب حاصل کروگی ؟ممکن ہے اپنی زندگی میں، اس کا کچھ عوض دے سکوں .طوعہ نے
پوچھا آپ کون ہیں آپ نے فرمایا: میں مسلم بن عقیل ہوں کوفہ والوں نے میرے
ساتھ غداری کی ہے ۔طوعہ نے کہا آپ مسلم ہیں آئیے میرا گھر حاضرہے آپ داخل
خانہ ہوئے طوعہ نے ایک الگ کمرے میں فرش لگایا کھانا لائی مگر آپ نے کھانا
تناول نہیں فرمایا. اسی اثنا میں طوعہ کا لڑکا بلا ل آگیا اس نے اپنی ماں
کو جب اس کمرہ میں باربار آتے جاتے دیکھا تو معلوم کیا کہ آپ اس کمرہ میں
آج بار بار کیوں داخل رہی ہیں بتائیے ماجرا کیا ہے ؟لڑکے کی ضد نے اس کو یہ
راز بتانے پر مجبور کردیا پہلے اس نے لڑکے سے کہا : تم یہ قسم کھاؤ کہ یہ
بات کسی سے نہیں بتاؤ گے اس نے قسم کھائی توطوعہ نے کہا کہ آج ہمارے گھر
میں مسلم بن عقیل مہمان ہیں وہ یہ بات سن کرخاموشی سے لیٹ گیا لیکن صبح
ہونے کا بے چینی سے انتظار رکرنے لگا ،صبح ہوتے ہی طوعہ کا لڑکا بلا ل،
عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ مسلم بن عقیل ہمارے
گھر میں موجود ہیں عبدالرحمن، فورا ہی دربار ابن زیاد میں اپنے باپ کے پاس
پہنچا اور اس کے کان میں آہستہ سے کہا کہ مسلم ہمارے محلہ کے گھر میں چھپے
ہوئے ہیں ابن زیاد نے پوچھا کہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے ؟محمد بن اشعث نے جواب
دیا کہ کہتا ہے مسلم بن عقیل ہمارے گھروں میں سے کسی گھر میں ہیں. مسلم کی
گرفتاری کیلئے ابن مرجانہ نے محمد بن اشعث کی سرکردگی میں اسیّ سواروں کو
روانہ کیا جب یہ لشکر طوعہ کے گھر کے قریب پہنچا جناب مسلم نے ہتھیاروں کی
جھنکاراورگھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی زرہ پہن کرگھر سے باہر نکلنا ہی
چاہتے تھے کہ ابن اشعث کا لشکر گھرمیں داخل ہوا اورمسلم کوگرفتار کرنے کے
نتیجہ میں جنگ شروع ہوگئی اور تن تنہا مسلم نے لشکر کوتین مرتبہ گھر سے
باہر نکال دیا۔
جب ابن زیاد کے سپاہیوں نے دیکھا کہ اس طرح مسلم بن عقیل پر ہم قابو نہیں
پاسکیں گے توانہوں نے مکانوں کی چھتوں سے جناب مسلم پر پتھر اور آگ
برساناشروع کردیا،مسلم بن عقیل اس روباہ شکار لشکر کی بزدلی اور اوچھاپن
کودیکھ کر گھر سے نکل آئے اوردلیرانہ جنگ کرنے لگے اورمحمد بن اشعث کے بہت
سے سپاہیوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا ۔مسلم کے حملوں کودیکھ کر ابن اشعث سمجھ
گیا کہ مسلم کواس طرح گرفتار نہیں کیا جاسکتا لہذا اس نے کہا مسلم آپ کے
لئے امان ہے توآپ نے فرمایا:کیا فریب کا راوربدکردارلوگوں کی امان پر
اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ لیکن لشکر والوں نے بیک آواز کہا کہ آپ کودھوکا نہیں
دیا جارہا ہے اورنہ ہی آپ سے جھوٹ بولا جارہا ہے ۔آپ کواسیر کرکے ابن زیاد
کے پاس لایا گیا ؛اورجب جناب مسلم نے اپنی شہادت کے آثار محسوس کئے تووصیت
کے لئے مہلت طلب کی ابن زیاد نے کہا وصیت کی اجازت ہے حضرت مسلم نے ایک
مرتبہ پورے مجمع پر نظر ڈالی عمر سعد کے علاوہ کوئی شخص وصیت کے لائق نظر
نہ آیا،مجبوری کی حالت میں کمینہ، نالائق اور گھٹیا لوگ بھی قابل اعتماد
سمجھ لئے جاتے ہیں ،لہذاحضرت مسلم نے بھی ابن سعد کولائق اعتبار سمجھ
کرفرمایا ہمارے تمہارے درمیان ایک قرابت ہے اس لئے تم سے میری ایک خواہش ہے
لیکن ابن سعد نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا ،ابن زیاد نے کہا سن تو
لوکیا کہتے ہیں.ابن سعد جناب مسلم کے پاس گیا آپ نے اس کویہ وصیت کی کہ جب
میں کوفہ آیا تھا تواس وقت میں نے چھ سودرہم قرض لئے تھے ان کومیری زرہ
اورتلوار فروخت کرکے اداکردینا اورمیری شہادت کے بعد ابن زیاد سے میر ی لاش
لے کردفن کردینا اورامام حسین علیہ السلام کو خط لکھ کر اس حادثہ سے مطلع
کردینا اورلکھنا کہ کوفہ تشریف نہ لایئے. ابن زیاد نے حکم دیا کہ مسلم کو
بالائے بام لے جاکر شہید کردیا جائے جب حضرت مسلم کو چھت پر لے جایا گیا تو
اس وقت آپ یاد خدا میں مصروف تھے احمر بن کبیر نے جناب مسلم (ع)کا سر تن
سے جدا کیا اور لاش کو زمین پرپھینک دیا ۔اِنّا للّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ
راجِعون
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: