حضرت قاسم ابن حسن فرزند رسول (ص) امام حسن مجتبي (ع) کے فرزند ہیں۔ روز عاشور آپ نے میدان کربلا میں اپنے بابا حسن ابن علی کی نیابت کی اور میدان کربلا میں اپنے دادا حیدر کرار سے ملنے والی شجاعت اور بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ فوج اشقیہ کے قدم اکھڑ گئے اوربلا آخر اپنے چچا حسین علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوئے میدان کربلاء میں شہید ہو گئے۔ حضرت قاسم ابن حسن کی شہادت ان عطیم مصیبتوں میں سے ایک ہے کہ جو روز عاشور ا اہل بیت رسول پر ڈھائیں گئی یوں تو حضرت قاسم(ع) کی شہادت کے واقعات کو ابو مخنف، شیخ مفید، ابو الفرج اصفہانی، علامہ مجلسی اور طبری جیسے جیّد علمائے اسلام نے اپنی اپنی کتابوں میں اس طرح بیان کیا ہے: جب سرکار سیّد الشہداء کے تمام اصحاب باوفا اپنی جانوں کا نذرانہ راہ خدا میں پیش کر چکے اور اب اولاد امام حسن مجتبیٰ کی باری آ گئی تو حضرت قاسم(ع) محضر امام حسین(ع) میں شرفیاب ہوئے اور عرض کی چچا جان! اب مجھے جنگ کی اجازت مرحمت فرمائیں! حضرت نے جواب دیا: اے قاسم! اے میرے بھتیجے! تم تو میرے شہید بھائی کی نشانی ہو لہذا تم میدان میں نہ جاؤ! میرے نور نظر! تمہارا وجود میرے دل شکستہ کی ڈھارس و سکون ہے۔ جب جناب قاسم نے دیکھا کہ چچا اجازت نہیں دے رہے ہیں تو آپ نہایت غمگین اور افسردہ ہوئے اور روتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور چچا کے پیروں پر سر کو رکھ کر اصرار کرنے لگے اسی اثنا میں جناب قاسم کو یاد آیا کہ بابا نے وقت آخر بازو پر ایک تعویز باندھا تھا اور فرمایا تھا کہ بیٹا! جب تم پر کوئی سخت وقت آن پڑے تو تم اس تعویز کو کھولنا اور اس کی عبارت کو پڑھنا اور جو کچھ اس میں لکھا ہو اس کے مطابق عمل کرنا۔ جناب قاسم نے اپنے دل ہی دل میں کہا: بابا کو شہید ہوئے زمانہ ہو گیا لیکن کسی بھی دن اس سے بڑی مصیبت سے دوچار نہیں ہوا ہوں اب مجھے اس تعویز کو کھول کر پڑھنا چاہئے بس جیسے ہی قاسم نے اس تعویز کو کھولا اور تحریر کو ملاحظہ کیا اس میں لکھا ہواتھا: میرے لاڈلے قاسم میں تمھے وصیت کرتا ہوں کہ جب بھی تم اپنے چچا کو کربلا میں دشمنو ں کے نرغے میں گھرا ہوا پاؤ تو ہر گز خدا و رسول کے دشمنوں سے جنگ کو ترک نہ کرنا اور اپنے چچا کے ہمرکاب رہ کر شجاعت حسنی کے جوہر دکھانا اور اگر تیرے چچا اجازت نہ دیں تو اتنا اصرار کرنا کہ وہ راضی ہوجائیں۔ جناب قاسم خوشی خوشی اٹھے تحریر کو لا کر سرکار سیّد الشہداء کے سپرد کیا جیسے ہی آپ کی نظر بھائی کی تحریر پر پڑی قاسم کے گلے میں باہیں ڈال دیں دونوں نے بہت گریہ کیا پھر سیّد الشہداء جناب قاسم کو خیمے میں لے کر گئے حضرت عباس، عون اور امّ فروہ کو اپنے قریب بلایا اور زینب کبریٰ سے فرمایا: بہن میرے اسلاف کے تبرکات کا صندوق لاؤ! غرض صندوق لایا گیا مولا نے امام حسن کی قبا کو قاسم کے زیب تن کیا امام مجتبیٰ کا عمامہ سر پر باندھا اہل بیت اس منظر کو دیکھ کر رونے لگے امام حسین نے جیسے ہی بھتیجے کو آمادہ ہوتے ہوئے دیکھا تو فریاد بلند کی: اے میرے لال قاسم: کیا اپنے پیروں آپ ہی موت کی طرف جا رہے ہو؟ قاسم نے جواب دیا: چچا جان کیسے نہ جاؤں؟ آپ دشمنوں کے نرغے میں بے یارو مددگار ہیں، چچا اس بھتیجے کی جان آپ پر قربان ہو جائے۔ امام نے قاسم کے گریبان کو چاک کر دیا اور عمامے کے دونوں سروں کو قاسم کے چہرے پر ڈال دیا اس طرح آپ نے بھتیجے کو رخصت کیا تاکہ دشمنوں کی نظر بد سے بھی محفوظ رہے اور گرمی آفتاب سے بھی امان میں رہے۔ حضرت امام زین العابدین سے روایت ہے کہ جب سرکار سیّد الشہداء نے شب عاشور تمام شہداء کے نام اور جنت میں ان کے مقام کے بارے میں بیان فرمانا شروع کیا اور محضر نامہ کو کھولا اور فرمایا کہ کل صبح زین العابدین کے علاوہ سب شہید ہوں گے قاسم بن حسن نے اس خوف سے کہ وہ کم سن ہیں کہیں شہداء کی فہرست میں ان کا نام نہ ہو عرض کی "و انا فی من یقتل یا عم" چچا جان کیا میرا نام بھی شہداء میں ہے؟ حضرت نے قاسم کو اپنے قریب بلایا، ان کے سر پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا:
"یا ابن اخی کیف تجد طعم الموت عندک؟" برادر زادے ! تمہاری نظر میں موت کیسی ہے؟ جناب قاسم نے جواب دیا: "احلی من العسل" چچا موت میرے لئے شہد سے زیادہ شیرین ہے۔ پھر حضر ت نے فرمایا: ا
ے نور نظر تم بھی کل قتل ہونے والوں میں سے ہو گے اور تمہاری لاش کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کر دیا جائے گا۔ حمید ابن مسلم ازدی (تاریخ کربلا کا مؤرخ) کا بیان ہے کہ میں نے ایک ایسے نوجوان کو میدان کارزار کی طرف آتے دیکھا جو عربی نعلین پہنے ہوئے ہے کہ جس کا بایاں تسمہ کھلا ہوا ہے اور یہ رجز پڑھ رہا تھا وہ کہہ رہا تھا
ان تنکرونی فانا ابن الحسن سبط النبی المصطفی المؤتمن هذا حسین کالاسیرالمرتهن بین اناس لا سقوا صوب المزن ترجمہ: اگر تم مجھے نہیں جانتے تو جان لو کہ میں ہوں حسن مجتبی(ع) کا بیٹا اور فرزند ہوں سبط نبی مصطفی(ص) کا جن کا لقب "امین" ہے یہ حسین(ع) ہیں تمہارے درمیان ایک گروی لئے ہوئے اسیر کے مانند، ایسے لوگوں کے درمیان جن کو اللہ تعالی کبھی بھی جزائے خیر نہیں دے گا۔ اس نے میدان میں پہنچتے ہی بڑی شان سے جنگ کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 35 افراد کو قتل کر دیا جب لشکر شام نے دیکھا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی مقابل نہیں ہے تو انہوں نے یہ حربہ استعمال کیا کہ اس پر پتھر برسانا شروع کر دیئے۔ عمرازدی آگے بڑھا اور کہا کہ خداکی قسم! میں اس پر حملہ کر کے اس کو قتل کر ڈالوں گا جنگ کی اس افراتفری میں اس موقع کو غنیمت پا کر آپ کے فرق اقدس پر ایک زوردار وار کیا جس کے سبب سر دو نیم ہوگیا آپ نے اپنے چچا کو مدد کے لئے پکارا امام اس باز کے مانند کہ جو بڑی تیزی سے شکار کو دیکھ کر آسمان کی بلندیوں کو چھوڑ کر نیچے آ جاتا ہے دشمن پر حملہ آور ہوئے عمر ازدی پر شمشیر سے ایسا وار کیا کہ اس کا ہاتھ کٹ کر اس کے بدن سے جدا ہو گیا اس نے اپنے قبیلے والوں کو مدد کے لئے پکارا انہوں نے آ کر امام پر حملہ کر دیا اس طرح ایک بار پھر ایک شدید جنگ کا آغاز ہو گیا اب جیسے ہی ادھر کے گھوڑے ادھر اور ادھر کے گھوڑے ادھر ہوئے قاسم کا جسم نازنین گھوڑوں کی سموں سے پامال ہو گیا جب کچھ دیر کے بعد جنگ رکی امام بھتیجے کے سرہانے پہنچے عجیب منظر دیکھا قاسم زمین پر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اور جان نکلنا چاہتی ہے مولا نے روتے ہوئے فرمایا: :
’’خدا کی قسم تمہارے چچا کے لئے یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ تم اپنے چچا کو پکارتے ہو اور اس کی طرف سے جواب نہیں آتا یا جواب آتا ہے لیکن وہ تمہاری مدد نہیں کر پاتا یا وہ تمہاری مدد کو تو آتا ہے لیکن تمہیں اس کا فائدہ نہیں ہوتا، ہلاکت ہے اس قوم کے لئے جس نے تمہیں قتل کیا لعنت ہے تمہارے قاتل پر۔‘‘ اب فاطمہ کا لال لاش اٹھانا چاہتا ہے قاسم کے سینے کو اپنے سینے سے لگا کر اٹھایا جسد کی پامالی کے سبب پیر زمین پر خط کھینچ رہے تھے حضرت نے لاش کو لا کر اکبر کی لاش کے برابر رکھ دیا ایک بار پھر اہل بیت کے خیموں میں ایک کہرام برپا ہو گیا مولا نے سب کو اس عظیم مصیبت پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی۔ بےشک آج بھی اہل بیت کی اتباع کرنے والے قوت، شجاعت اور قربانی کا درس جناب قاسم اور شہدائے کربلا سے حاصل کرتے ہیں۔ قربانی اورشہادت وہ علامت ہے کہ جس سے ابو الاحرار حضرت امام حسین کی اتباع کرنے والے ہر زمانے میں اور ہر جگہ پہچانے جاتے ہیں۔ ہر مومن نوجوان جناب قاسم کو اپنا نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے مذہب اور مقدسات کا دفاع کرتا ہے۔