گو بظاہر عمر چار یا چھ سال تھی لیکن عاشور، شام غریباں ، کوفہ شام کے سفر ، ابن زیاد اور یزید ملعون کے دربار،اپنے والد اور پیاروں کے قاتلوں کیساتھ دوران اسیری سمیت ہرمقام پر یزیدی مظالم کے پہاڑوں کے سامنے صبر، ہمت اور جرات کا بہت بڑاپہاڑثابت ہوئیں۔ ان مظالم کے باوجودکسی مقام پر بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو خانوادہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقارکےمنافی ہو۔۔
بی بی سکینہ بنت امام حسین علیہ السلام نے کوفہ میں ایک ایسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ آپ سلام اللہ علیھاکی بلاغت و فصاحت پر دنگ رہ گئے ۔اس خطبہ نے لوگوں کے دلوں
کو کاٹ ڈالا اور لوگ غم کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے اس خطبہ کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور ان کو احساس ہوا کہ ان سے کتنا بڑا گناہ سرزد ہوا ہے۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کے خطبے کا متن کچھ یوں ہے۔
” حمد ہے اللہ کی ریت کے ذروں اور سنگریزوں کے برابر ،عرش کے وزن سے لے کر زمین تک ،میں اس کی حمد بجا لاتی ہوں ،اس پر بھروسہ کرتی ہوں ،گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طاہر اولاد کو فرات کے کنارے پیاسا ذبح کر دیا گیا۔
اے اللہ ! تو نے اپنی مخلوق سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا عہد لیا اور ان کو اس عہد کی نصیحت کی ۔لیکن مخلوق نے تیرا یہ عہد توڑ ڈالا اورامیرالمومنین علیہ السلام کے حق کو غصب کر لیا گیا اور آپ علیہ السلام کو شہید کر دیا ۔جیسے کل انہی کے بیٹے حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دادا علی علیہ السلام کو تیرے گھر میں شہید کیا گیا جس میں دیگر مسلمان بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی زبانوں سے ان کی مظلومی کا اقرار کیا ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا لیکن انہوں نے تیری خاطر صبر سے کام لیا اور وہ اس حال میں دنیا سے گئے کہ ان کی حمد بیان کی گئی اور ان کے فضائل و مناقب ہر جا معروف ہیں اور کوئی بھی ان کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ اے اللہ! میرا سن بہت چھوٹا ہے اور میرے دادا کے مناقب بہت عظیم ہیں، میں اس پر ان کی تعریف کرتی ہوں۔ اے اللہ! تو جانتا ہے میرے دادا نے ہمیشہ تیری توحید اور تیرے رسول کی حفاظت کی اور آپ کو دنیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ آپ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تونے ان کو چن لیا اور اپنی صراط مستقیم قرار دیا۔
اے کوفیو! اے مکروفریب اور دھوکہ دینے والو! اللہ نے ہم اہل بیت علیہ السلام کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا۔ اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا، ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا گویا ہم اولاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں، کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا۔ تم نے ہمیں قتل کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور تمہارے دل خوش ہوئے تم نے اللہ پر افترا باندھا اور تم نے فریب کیا، اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا، ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بیشک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم پر لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو۔ تمہارے لیے ویل (جہنم)ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی ،کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی ،کون ہماری طرف خود چل کر آیا ،تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے، تمہارے دل سخت ہوگئے، تمہارے جگر غلیظ ہوگئے ،اللہ نے تمہارے دلوں ،کان،آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہو گئے۔
اے کوفیو! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو ،کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہرنجس کو ان سے دور رکھا ؟ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے ۔تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا ۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کے خطبے کا متن کچھ یوں ہے۔
لوگوں پر اس خطاب کا گہرا اثر ہوا گریہ کی آوازیں بلند ہو گئیں اور وہ کہنے لگے کہ اے خاندان عصمت کی بیٹی آپ کی ان باتوں نے ہمارے دلوں اور سینوں میں آگ لگا دی ہے اور غم و الم کی وجہ سے ہمارے کلیجے منہ کو آ رہے ہیں۔ بس کریں رک جائیں خاموش ہو جائیں۔ تو حضرت فاطمہ خاموش ہو گئیں۔