25 محرم: امام زین العابدین(ع) کی شہادت کا المناک دن

حضرت امام سجاد(ع) کی دعاؤں میں سے صرف چند دعائیں ہی ہم تک کتابی صورت میں پہنچیں ہیں جو دنیا میں صحیفہ سجادیہ کے نام سے جانی جاتی ہیں لیکن ان دعاؤں میں موجود عظیم ترین مفاہیم و معانی کے لعل و جواہر کو مد نظر رکھتے ہوئے با بصیرت لوگ دعاؤں کے اس مجموعے کو "زبور آل محمد" کہتے ہیں۔ ان دعاؤں نے عارفین کے دلوں کو حرمِ خدا اور معرفتِ الہی کی ناقابلِ تصور بلندیوں تک پہنچا دیا، عابدوں کے لیے محرابِ عبادت میں وہ لذت مہیا کردی کہ جس نے ان کے لیے فانی دنیا کی لذتوں کو بے معنی کر دیا، زاہدوں کو ایسا زادِ راہ عطا کیا جس سے وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہو گئے......

حضرت امام سجاد(ع) ایسے بلند اخلاق کے مالک تھے کہ مومنین کے دل ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور بشری پیکر میں موجود اس مشعلِ نور سے ہدایت حاصل کرتے تھے......

حضرت امام سجاد(ع) ہی وہ شخضیت ہیں کہ جن کا خشوع و خضوع، زہد و تقوی اور عبادت و خدا پرستی ضرب المثل بن گئی اور آج تک آپ کو زین العابدین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے......

حضرت امام سجاد(ع) ہی وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے امام حسین(ع) کے برپا کردہ انقلاب کو اپنی پھوپھی اور اسیران کربلا کے ہمراہ آب حیات پلایا اور انقلاب عاشوراء کا زندگی کی آخری سانسوں تک دفاع کیا اور دنیا کو اس عظیم انقلاب کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا اور اس کے ثمرات کو ہر خطے تک پہنچا دیا۔

حضرت امام سجاد(ع) ہی ان آنکھوں کے مالک ہیں جن سے دس محرم کے بعد جاری ہونے والے آنسو کبھی خشک نہ ہوئے......

ہم اس مختصر تحریر میں امام سجاد(ع) کے بارے میں کچھ ہی سطور کے ذریعے اپنے قلم کو شرف اور قارئین کی آنکھوں کو نور بخشیں گے۔

نامِ مبارک: ہمارے چوتھے امام کا نام "علی" ہے کہ جو حضرت امام حسین (ع) کا فرزند اور حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے پوتے ہیں۔

مشہور القاب: حضرت امام علی بن حسین بن علی بن ابی طالب(ع) کے القاب میں سے دو لقب بہت زیادہ مشہور ہیں اول: سجاد دوم: زین العابدین

کتابوں اور لوگوں کے درمیان گفتگو میں ہمارے چوتھے امام کو اکثر طور پر نام کی بجائے لقب سے ہی یاد کیا جاتا ہے اور امام سجاد(ع) یا امام زین العابدین (ع) کہہ کر ذکر کیا جاتا ہے۔

والدہ ماجدہ: حضرت امام سجاد(ع) کی والدہ کا نام "شاہ زنان" تھا اور بعض روایات میں ا مام سجاد(ع) کی والدہ کا نام "شہر بانو" بھی مذکور ہے۔ امام علیہ السلام کی والدہ ایران کے بادشاہ یزجر بن شہریار کی بیٹی تھیں۔

تاریخِ ولادت: حضرت امام سجاد(ع) کی ولادت باسعادت حضرت امام علی بن ابی طالب(ع) کی شہادت سے تقریبا دوسال پہلے پانچ شعبان 38ہجری میں ہوئی۔

حضرت امام سجاد(ع) نے اپنے دادا حضرت امیر المومنین(ع) اور اپنے چچا حضرت امام حسن(ع) اور اپنے بابا حضرت امام حسین(ع) کے دورِ امامت میں زندگی گزاری اور دنیا کے اتار چڑھاؤ اور بے وفا مسلمانوں کے بدلتے رنگوں اور منافقین کے مکر وحیلوں کو بہت قریب سے دیکھا اور جوانانِ جنت کے سرداروں حضرت امام حسن(ع) اور حضرت امام حسین(ع) کو امت کے ہاتھوں ملنے والے مصائب و آلام اور دکھوں میں ان کے برابر کے شریک رہے اور اہل بیت رسول خدا(ص) پر گرنے والی کائنات کی سب سے بڑی مصیبت کو کربلا سے شام اور شام سے مدینہ تک اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسی مصیبت نے ہی امام سجاد(ع) کو آخری دم تک خون کے آنسو رلایا۔

سیرتِ طیبہ: حضرت امام سجاد(ع) بہت ہی عظیم اوصاف، اعلی ترین اخلاق اور بلند ترین صفات کے مالک تھے اور لوگوں کے ساتھ اِس اخلاق سے ملتے تھے کہ ہر ملنے والا آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا، آپ ہمیشہ لوگوں کی حاجات اور ضرورتوں کا خیال رکھتے اور اپنا تعارف کروائے بغیر ان کے گھروں میں ان کی ضرورت کی اشیاء پہنچا دیتے۔ ہم اس مختصر تحریر میں اس عنوان کے تحت امام سجاد(ع) کے بارے میں چند روایات قارئین کی نذر کرتے ہیں:

1:۔ عمر بن ثابت کہتا ہے: جب امام علی بن حسین(ع) کی وفات ہوئی اور انھیں غسل دیا گیا تو غسل دینے والے ان کی کمر پر سیادہ نشانات دیکھنے لگے اور کہنے لگے:یہ کیا ہے؟ تو کسی نے انھیں بتایا کہ: امام زین العابدین(ع) رات کو آٹے کی بوریاں اپنی کمر پر اٹھا کر اہل مدینہ کے فقراء میں تقسیم کرتے تھے اور یہ انھی بوریوں کے نشانات ہیں۔

2:۔ زرارہ سے مروی ہے: حضرت امام زین العابدین(ع) ایک اونٹنی پر سوار ہو کر بیس مرتبہ حج کے لیے گئے لیکن کبھی ایک مرتبہ بھی اسے چھڑی سے نہ مارا۔

3:۔ زرارہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت امام سجاد(ع) سے کہا: آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ نیک و برگزیدہ ہیں لیکن آپ اپنی والدہ کے ساتھ ایک برتن میں کھانا نہیں کھاتے حالانکہ وہ یہ چاہتی ہیں؟ تو امام سجاد(ع) نے فرمایا: میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرا ہاتھ اس لقمہ کی طرف سبقت لے جائے جس لقمہ کی طرف میری ماں کی آنکھیں سبقت لے چکی ہیں۔

4:۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت امام سجاد(ع) پہ سب و شتم کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: اے جوان ہمارے سامنے ایک بہت ہی دشوار ترین رکاوٹ ہے اگر میں اس رکاوٹ کو عبور کر لیتا ہوں تو مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو تم نے کہیں ہیں اور اگر میں اسے عبور نہ کرسکا تو میں اس سے بھی بد تر ہو جو تم نے کہا ہے۔

5:- ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام سجاد(ع) کی ایک کنیز سے کھانے سے بھرا برتن ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے اس کا چہرہ خوف سے پیلا ہو گیا۔ تو امام سجاد(ع) نے اسے فرمایا: جاؤ تم خدا کی راہ میں آزاد ہو۔

6:- مروی ہے کہ ایک دن حضرت امام سجاد(ع) کا گزر کچھ ایسے افراد کے پاس سے ہوا جو اُن کی برائیاں کر رہے تھے، امام سجاد(ع) اُن کے پاس رکے اور اُن سے فرمایا: اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو خدا میری مغفرت فرمائے اور اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تمہاری مغفرت فرمائے۔

7:- ایک روایت میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام سجاد(ع) باہر نکلے تو آپ سے ایک شخص ملا جس نے آپ کو گالی دی، جس کی وجہ سے آپ کے ساتھ موجود غلام اور چاہنے والے اس شخص پر غضبناک ہو گئے تو آپ نے اُن سے فرمایا: ٹھہر جاؤ، پھر آپ(ع) نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا: ہمارا معاملہ تم پر زیادہ پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے، کیا تمہاری کوئی ایسی حاجت ہے کہ جسے ہم پورا کر سکتے ہیں؟ یہ سن کر وہ شخص شرمندہ ہو گیا۔ پھر آپ (ع) نے اپنی چادر اس پر ڈال دی اور اسے ایک ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ شخص امام سجاد(ع) کو کہا کرتا تھا کہ: میں گواہی دیتا ہوں واقعی آپ رسولوں کی اولاد ہیں۔

امام سجاد(ع) کی عبادت: ہم حضرت امام سجاد(ع) کی عبادت کے بارے میں اس سے زیادہ کیا لکھ سکتے ہیں کہ تاریخ نے آپ(ع) کو "زین العابدین" اور "سید الساجدین" کا لقب دیا اور سجاد کے نام سے یاد کیا۔ تاریخی کتب میں حضرت امام سجاد(ع) کی عبادت کے بارے میں موجود روایات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم اپنے قارئین کی خدمت میں فقط چند روایات پیش کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں:

1:- روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام سجاد(ع) کا بیٹا کنوئیں میں گر گیا تو اہل مدینہ نے بہت زیادہ چیخ و پکار شروع کردی اور پھر امام کے فرزند کو کنوئیں سے نکال لیا، اس دوران حضرت امام سجاد(ع) محراب عبادت میں نماز پڑھ رہے تھے، جب بعد میں آپ(ع) کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے فرمایا:مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا میں اس دوران اپنے عظیم پروردگار سے مناجات کر رہا تھا۔

2:- طاؤوس کہتا ہے کہ میں نے ایک دن مسجد الحرام میں میزاب کے نیچے ایک نمازی کو دیکھا کہ جو دعا کر رہا تھا اور دعا میں بہت گریہ کر رہا تھا، جب اس آدمی نے نماز ختم کی تو میں اس کے پاس گیا تو دیکھا تو وہ امام علی بن حسین (ع) ہیں۔ میں نے امام(ع) سے کہا: اے اللہ کے رسول کے فرزند!میں نے آپ کو اس حالت میں د یکھا ہے حالانکہ آپ کے پاس تین ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں مجھے امید ہے کہ وہ آپ کو خوف سے امان دے سکتی ہیں ان میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ رسول خدا(ص) کے فرزند ہیں، دوسری چیز آپ کے جد امجد کی شفاعت ہے اور تیسری چیز خدا کی رحمت ہے۔ امام سجاد(ع) نے یہ سن کر فرمایا: اے طاؤوس جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں رسول خدا کا فرزند ہوں تو یہ چیز مجھے امان نہیں دے سکتی کیونکہ میں نے خدا کا یہ فرمان سن رکھا ہے "اس دن ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہ رہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے" اور جہاں تک میرے جد امجد کی شفاعت کی بات ہے تو وہ بھی مجھے امان نہیں دے سکتی "کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے وہ صرف اسی کی شفاعت کریں گے جس سے اللہ راضی ہو گا" اور جہاں تک خدا کی رحمت کی بات ہے تو اللہ فرماتا ہے "خدا کی رحمت محسنین کے قریب ہے اور میں یہ نہیں جانتا کہ میں محسن ہوں یا نہیں"۔

امام سجاد(ع) کا جہاد: حضرت امام سجاد(ع) نے اپنی سیرت اور نہج کے ذریعے کبھی بھی گوشہ نشینی، صوفیت یا رہبانیت کی نمائندگی نہیں کی، امام سجاد(ع) نے سانحہ کربلا سے ناقابل تصور صدمہ اٹھایا اور اس کے بعد اپنی سیرت و کردار اور سچے گفتار و بیان کے ذریعے جہاد کیا اوراپنے گرد موجود لوگوں کو ایسے ہدایت یافتہ گروہوں میں تبدیل کر دیا کہ جنہوں نے ظالموں کے دلوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور ان کے تاج و تخت کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب اسیرانِ کربلا کا قافلہ ابن زیادہ ملعون کے دربار میں لایاگیا تو اس لعین نے امام سجاد(ع) کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ یہ علی بن حسین(ع) ہے۔ تو ابن زیادہ لعین کہتا ہے: علی بن حسین کو تو اللہ نے قتل نہیں کردیا؟ یہ سننا تھا کہ امام سجاد(ع) نے نہایت شجاعت اور بغیر کسی خوف و ڈر کے گرجتی ہوئی آواز میں اس ملعون سے کہا: میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی بن حسین ہے لوگوں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ اس لہجے میں یہ جواب سن کر ابن زیادہ ملعون نے کہا:لوگوں نے نہیں بلکہ اسے اللہ نے قتل کیا ہے۔ امام سجاد(ع) نے رسول خدا(ص) سے ورثے میں ملنے والی دانائی اور امیر المومنین(ع) کی شجاعت کے ساتھ اس ملعون کو اپنے دلیرانہ لہجے میں کہا: اللہ تو موت کے وقت روحوں کو قبض کرلیتا ہے،اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔ ابن زیادہ ملعون نے جب یہ جواب سنا تو اس نے کہا: تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھے جواب دیتے ہو، پھر اس ملعون نے جلادوں سے کہا: اسے لے جا کر اس کی گردن اڑا دو۔ اس ملعون کی یہ بات سنتے ہی حضرت زینب(ع) نے بڑھ کر فرمایا: اے ابن زیاد تو ہم سے میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا، اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ مجھے بھی قتل کر دو۔ امام سجاد(ع) نے فرمایا: اے میری پھوپھی جان آپ مجھے اس سے بات کرنے کی مہلت دیں۔ پھر امام سجاد(ع) نے ابن زیاد ملعون کو مخاطب کر کے اپنے علوی لہجے میں فرمایا: اے ابن زیاد کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دیتے ہو؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ قتل ہو جانا تو ہماری عادت ہے اور شہادت تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے عطا کردہ سعادت ہے۔ امام سجاد سانحہ کربلا کے بعد تمام ھم و غم او رالم و دکھوں کے باوجود معاشرے کے درمیان رہے جس کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آپ کے گرد جمع ہو گئی اور چشمہ امامت سے سیراب ہونے لگی، آپ کے علم و فضل، بزرگی و دانائی اور فضائل و مناقب کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔

فرزدق کا امام سجاد(ع) کی شان میں قصیدہ: ہشام بن عبد الملک تخت حکومت پر بیٹھنے سے پہلے ایک مرتبہ حج کے لیے آیا تو طواف کے بعد حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے اس نے حجر اسود تک پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا، پھر اس کے لیے حطیم میں زم زم کے کنویں کے پاس ایک منبر لگا دیا گیا جس پر بیٹھ کر وہ لوگوں کو دیکھنے لگا اور اہل شام اس کے گرد کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران حضرت امام سجاد(ع) بھی آ کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے اور جب وہ حجر اسود کی طرف بڑھے تو لوگوں نے امام سجاد(ع) کو خود ہی راستہ دے دیا اور وہ حجر اسود کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک شامی نے کہا: یہ کون ہے جس کی لوگوں کے دلوں میں اتنی ہیبت و جلالت ہے کہ لوگ اس کے لیے دائیں بائیں ہٹ کر صف بستہ کھڑے ہو گئے؟ ہشام نے اس شامی کو جواب دیتے ہوئے کہا: میں اس کو نہیں جانتا۔ (حالانکہ ہشام خوب اچھی طرح سے امام سجاد(ع) کو جانتا اور پہنچانتا تھا لیکن پھر بھی اس نے جھوٹ بولا کہ کہیں ان شامیوں کے دل میں امام سجاد(ع) کی ہیبت و جلالت نہ بیٹھ جائے) فرزدق بھی وہیں پر موجود تھا اس نے سوال کرنے والے شامی سے کہا: میں اس شخص کو جانتا ہوں۔ اس شامی نے کہا: اے ابا فراس کون ہے یہ؟ تو فرزدق نے اس کے جواب میں ا یک ایسا قصیدہ پڑھا کہ جس نے باطل کے پردوں کو ہٹا کر ہر طرف حق کا نور پھیلا دیا اور اس قصیدہ کے چند شعر اور ان کا ترجمہ یہ ہے:

يا سائلي أين حلّ الجودُ والكرمُ

عندي بيان إذا طلاّبُه قَدِمُوا

اے "کہاں ہے سخاوت اور کرم" کا سوال کرنے والے، اگر اس بات کو جاننے کے طلبگار آ جائیں تو میرے پا س اس کا جواب ہے۔

هذا الذي تَعِرفُ البطحاءُ وطأته

والبيتُ يعرفُهُ والحِلُّ والحَرَمُ

یہ وہ شخصیت ہیں جن کے نشانِ قدم کو بھی وادئ بطحاء(مکہ) پہنچانتی ہے، انھیں خانہ کعبہ، حرم اور حرم سے باہر کا سارا علاقہ پہنچانتا ہے.

هذا ابن خيرِ عبادِ اللهِ كُلهمُ

هذا التقي النقي الطاهر العلمُ

یہ تمام بندگان خدا میں سے بہترو افضل ہستی کے فرزند ہیں، یہ متقی و پرہیز گار پاک و پاکیزہ اور عَلمِ ھدایت ہیں۔

ھذا علی رسول اللہ والدہ

امت بنور ھداہ تھتدی الظلم

یہ علی ہیں اور ان کے بابا رسول خدا(ص) ہیں، کہ جن کے نور سے امت تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتی ہے۔

إذا رأتهُ قريش قال قائلها

إلى مكارم هذا ينتهي الكـرم

جب قریش انھیں دیکھتے ہیں تو کہنے والے کہتے ہیں ان کے بلند مرتبہ اخلاق پہ جود و سخاوت کی انتہاء ہوتی ہے۔

ینمي الی ذروة العز الذی قصرت

عن نیلھا عرب الاسلام والعجم

انھیں عزت و شرف کی وہ بلندی نصیب ہوئی ہے جس کو پانے سے عرب و عجم قاصر ہیں۔

يكاد يمسكه عرفان راحته

رُكن الحطيمِ إذا ما جاءَ يستلمُ

اگر یہ حجر اسود کا بوسہ لینے نہ آتے تو حجر اسود والا کونہ خود ان کی ہتھیلی کو چومنے ان کے پاس پہنچ جاتا۔

یفضی حیاء ویفضی من مھابته

فما تکلم الاّ حین یتبسم

وہ حیا و شرافت کی وجہ سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں اور ان سے صرف اس وقت بات کی جا سکتی ہے جب وہ مسکرا رہے ہوں۔

ھذا ابن فاطمة ان کنت جاھله

بجدہ انبیاء اللہ قد ختموا

اگر تم ان کو نہیں جانتے تو جان لو یہ فرزندِ فاطمہ ہیں ان کے جد امجد پر تمام انبیاء کی نبوت کا اختتام ہوتا ہے۔

اللہ شرفه قدما و عظمه

جری بذاک له فی لوحه القلم

اللہ نے انھیں پیدائش سے پہلے ہی شرف اور عظمت سے نوازا، اور ان کی عظمت کو قلم نے لوحِ محفوظ میں لکھا۔

من جدہ دان فضل الانبیاء له

و فضل امّته دانت له الامم

ان کے جد امجد کی عظمت کو انبیاء کی فضیلتیں نہیں پہنچ پاتیں اور ان کی امت کی عظمت کے سامنے تمام امتوں کی عظمتیں کم نظر آتی ہیں.

سھل الخلیقة لا تخشی بوادرہ

یزینه خصلتان الخلق والکرم

یہ نرم مزاج ہیں اور ان کے غصے کا ڈر نہیں اور یہ دو اوصاف ان کے اخلاق کو مزین کیے ہوئے ہیں۔

من معشر حبھم دین و بغضھم

کفر وقربھم منجي ومعتصم

لوگوں کا ان(آل رسول) سے محبت کرنا عین دین ہے اور ان سے بغض وکینہ رکھنا عین کفر ہے ان کا قرب ہی نجات دینے والا اور بچانے والا ہے۔

یستدفع الشر والبلوی بحبھم

ویسترب به الاحسان و النعم

ان کی محبت کے صدقہ میں شر اور بلائیں دور ہوتی ہیں، اور ان کے وسیلے سے احسان خدا اور نعمات الہی کو حاصل کیا جاتا ہے۔

مقدم بعد ذکر اللہ ذکرھم

فی کل یوم و مختوم به الکلم

ذکرِ خدا کے بعد ہر روز ان کا ذکر سب سے مقدم و افضل ہے اور انھی کے ذکر کے ساتھ کلام کا اختتام ہوتا ہے۔

ان عدّ اھل التقي کانوا آئمتھم

او قیل من خیر اھل الارض قیل ھم

اگر اھل تقوی کو شمار کیا جائے تو یہ متقیوں کے امام نظر آئیں گے اور اگر کوئی کہے زمین پر سب سے افضل کون ہیں؟ تو بھی کہا جائے گا سب سے افضل یہی ہیں۔

لا یستطیع جواد بعد غایتھم

ولا یدانیھم قوم وان کرموا

کوئی بھی سخی ان کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتا اور کوئی بھی قوم چاہے جتنی بھی سخاوت کر لے ان کی برابری نہیں کر سکتی۔

یابی لھم ان یحل الذم ساحتھم

خیم کریم واید بالندی ھضم

کریم اخلاق ان کے در پر مذمت کو آنے نہیں دیتا اور ان کے ہاتھوں کی سخاوتیں ہر وقت جاری ہیں۔

لاینقص العسر بسطا من اکفھم

سیان ذلک ان اثروا وان عدموا

حالات کی تنگی ان کے سخاوت کو کم نہیں کرتی چاہے ان کے پاس مال ہو یا کچھ نہ ہو ان کی سخاوت کے انداز نہیں بدلتے۔

امام سجاد(ع) کی شہادت: حضر ت امام سجاد(ع) نے اپنے کردار و عمل سے ظالموں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا امام سجاد (ع) کبھی تو اپنے مظلوم بابا حضرت امام حسین(ع) کی شہادت اور سانحہ کربلا کے مصائب پر گریہ کرتے،کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے اور کبھی اپنے کردار و عمل کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی رہنمائی کرتے...... حضرت امام سجاد(ع) کے طرز عمل سے لوگوں کو امام حسین(ع) اور اہل بیت رسول(ص) کی مظلومیت سے آگاہی مل رہی تھی، نسل در نسل اہل بیت کے حقوق کو غضب کرنے والوں کے اصل چہرے لوگوں پہ عیاں ہو رہے تھے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانوں کی بجائے اہل بیت کا اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا تھا......

اور یہی وہ بات تھی جس نے بنی امیہ کے لیے حضرت امام سجاد(ع) کے مقدس وجود کو خطرہ بنا دیا تھا اور وہ نبوت کی نیابت میں جلنے والی اس شمعِ امامت کو بجھانے کے درپے ہو گئے، آخر میں اس ظلم کو ڈھانے کی ذمہ داری ولید بن عبدالملک اور بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبد الملک کو سونپی گئی کہ جس نے ایک کھانے میں زہر ملا کر حضرت امام سجاد(ع) کو کھلا دیا۔

امام سجاد(ع) کی وصیت کے چند جملے: جب امام سجاد(ع) کے بدن میں زہر سرایت کر گیا اور آپ کو اپنی شہادت کا یقین ہو گیا تو آپ(ع) اپنے بیٹے امام محمد باقر(ع) کے پاس آئے اور انھیں چند وصیتیں فرمائی اور پھر فرمایا: اے میرے فرزند آگاہ ہو جاؤں میں عنقریب تم سے جدا ہونے والا ہوں، اور موت قریب آ چکی ہے اور ولید جو میرے ساتھ کرنا چاہتا تھا اس نے کر دیا ہے۔ امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں کہ میرے بابا نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: اے میرے فرزند! میں تمہیں وہ وصیتیں کرنا چاہتا ہوں جو میرے بابا نے مجھے اس وقت کی تھیں جب ان کی وفات کا وقت قریب آ گیا تھاپھر امام نے کچھ وصیتیں فرمائی کہ جن میں یہ وصیت بھی تھی کہ:اے بیٹا! خبردار کسی ایسے پر ظلم نہ کرنا جس کا خدا کے علاوہ کوئی مددگار نہ ہو۔

وصیتیں کرنے کے بعد تین مرتبہ امام سجاد(ع) پر غش طاری ہوا، پھر آنکھیں کھول کر امام سجاد(ع) نے یہ پڑھا : "اذا وقعت الواقعۃ" "انا فتحنا لک فتحا مبینا" پھر فرمایا: تمام تعریفیں اس معبود کے لیے ہیں کہ جس نے ہم سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں زمین کا وارث قرار دیا، ہم بہشت میں جس مکان میں چاہیں رہیں، تو اچھے عمل کرنے والوں کا اجر کتنا ہی اچھا ہے۔ اس کی بعد امام سجاد(ع) کی روح پرواز کر گئی اور امام سجاد(ع) نے انتہائی مظلومیت کے عالم میں 25محرم الحرام 94ہجری کو اس بے وفا دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: