اس سے پہلے ہم روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام پر ہونے والے ظالمانہ حملوں اور اس مقدس مقام کی دشمنوں کے ہاتھوں انہدام اور تباہی کے بارے میں کچھ تاریخی حقائق کو بیان کر چکے ہیں اور آج انہی حقائق کا تیسرا حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
اگر آپ پہلے دو حصوں کو پڑھنا چاہیں تو اس کے لئے یہ لنک استعمال کریں:
http://alkafeel.net/urdu/news/index.php?id=436
http://alkafeel.net/urdu/news/index.php?id=457
وہابیوں کا حملہ
سن 1216ہجری کو جب کربلا کے اکثر لوگ نجف اشرف میں عید غدیر کی زیارت کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے تو 2اپریل کو رات کے وقت اہل کربلا کو پتا چلا کہ وہابیوں کا ایک بہت بڑا لشکر کربلا کے قریب پہنچ چکا ہے تو انہوں نے جلدی سے شہر کے دروازے بند کر دیے لیکن اس وقت وہابیوں کا یہ لشکر شہر تک پہنچ چکا تھا ۔ وہابیوں نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور شہر کے ایک دروازے پر حملہ کر کے شہر کے اندر داخل ہو گئے ان ملعونوں نے شہر میں داخل ہونے کے بعد لوگوں کا قتل عام شروع کر دیا اور مرد ،عورت بچے و بوڑھے کسی پر بھی رحم کئے بغیر جو بھی نظر آیا اس کو قتل کر دیا ۔ روضہ مبارک میں داخل ہونے کے بعدان ملعونوں نے وہاں موجود لوگوں کو قتل کیااور وہاں سے ہر چیز کو لوٹ لیا اور حرم مبارک کی عمارت میں بری طرح توڑ پھوڑ کی،دروازے ، فانوس ، شمع دان اور سونے چاندی کی سب چیزوں کو لوٹ لیا۔ ایرانی بادشاہوں اور امراء کی طرف سے حرم مبارک کو دیے گئے قیمتی تحفے اور بیش قیمت اشیاء کو بھی لوٹ کر لے گئے۔
ان ملعون وہابیوں نے اس حملے میں ہزاروں بے گناہ افراد کو شہید کیا اور پورے شہر میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا ۔
نجیب پاشا کا حملہ
سن 1258ہجری میں اہل کربلا نے عثمانی حکومت کے بغداد پر حکمران نجیب پاشا کے ظالمانہ اور آمرانہ احکامات ماننے سے انکار کر دیا جس پہ اس نے سعد اللہ پاشا کی قیادت میں ایک بہت بڑا لشکر کربلا پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا ۔ جس نے کربلا کے شہر کو چاروں طرف سے گھیر کر اس پر گولہ باری شروع کر دی اور باب خان کے قریب دیوار میں سوراخ کر کے لشکر شہر میں داخل ہو گیا دو دن تک مسلسل جنگ ہوتی رہی جس میں دس ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوئے کہ جن میں بہت بڑی تعداد علماء اور سادات کی بھی تھی ۔ جب نجیب پاشا نے شہر پر قبضہ کر لیا تو اس نے شہر میں موجود لوگو ں کو قتل کرنے اور ان کے مال واسباب لوٹنے کاحکم دے دیا اور تین دن تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ لوگ اس آفت سے بھاگتے ہوئے حضرت عباس علیہ السلام کے روضہ مبارک میں داخل ہو گئے لیکن یہ ملعون اپنے لشکر سمیت روضہ میں داخل ہو گیا اور جو شخص بھی وہاں ملا اسے قتل کر دیا اور روضہ مبارک میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اس حادثے میں شہید ہونے والوں کی کل تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہے کہ جن میں بچوں اور عورتوں کی بھی بہت بڑی تعداد شامل ہے ۔
شیخ عبد الحسین احمد امینی اپنی کتاب شھداء الفضیلة میں لکھتے ہیں کہ جب عثمانی لشکر قتل و غارت گری کے بعد چلا گیا تو روضہ مبارک اور شہر میں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں ۔ وہ لوگ جو قتل ہونے سے کسی طریقے سے بچ گئے تھے انہوں نے سب لاشوں کو بغیر غسل وکفن کے دفن کرنا شروع کیا اور ایک قبر میں چار سے دس تک لاشوں کو دفن کیا گیا.