دوسرے سالانہ العمید سیمینار میں علمی ابحاث پر گفتگو۔۔۔۔

سیمینار میں علمی ابحاث پر گفتگو
دوسرے سالانہ العمید سیمینار کی افتتاحی محفل بروز جعمرات 14ذو الحجہ 1435ھ بمطابق 9 اکتوبر 2014ء کی صبح کو روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے امام حسن ہال میں منعقد کی گئی جس میں مختلف دینی، ثقافتی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی.
دوسرا سالانہ العمید سیمینار مصر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عادل زیادہ کی زیرِ صدارت منعقد ہوا جس میں تین ابحاث پر گفتگو کی گئی الجزائر کی بانتۃ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر بدر الدین زواقہ نے جس بحث کو گفتگو کا مرکز بنا وہ تھا (اسلامی میڈیا سے قریب اور اس سے مختلف میڈیا) ڈاکٹر بدر الدین زواقہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: جدید اور قدیم میڈیا نے دنیا کو معلومات دینے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور دنیا عالم میں دینی امور پر مبنی تحقیقات کو لوگوں تک پہنچایا ہے اور دنیا میں علم پہنچانے اور انسانی ترقی میں اس میڈیا نے قدیم اور جدید دونوں وسائل اور ترکیبوں کو استعمال کیا ہے۔
ڈاکٹر بدر الدین نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا: میڈیا سے رابطے کا ایک ذریعہ مہم مضامین پر لکھے جانے والے رسالہ جات اور معلومات کا فراہم کرنا ہے اور اسی طرح مغرب اور یورپ میں استعمال ہونے والے جدید ٹیکنالوجی کو انسان تک پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر بدر الدین کے خطاب کے بعد عراق کی ذی قار یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مساعد حیدر مصطفی ہجر نے جس بحث کو گفتگو کا مرکز بنایا وہ تھا ( تفسیر اور اس کے اشکالات کی اصطلاح) ڈاکٹر مساعد حیدر مصطفی نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: تفسیر کے معنی میں اہل لغت کے نزدیک کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک ہی معنی شمار کیا جاتا ہے اور وہ ہے ظاہر کرنا، بیان کرنا یا واضح کرنا ہے لیکن اگر اختلاف پایا جاتا ہے تو وہ اصلاحی معنی میں ہے بعض کے نزدیک تعریف غیر جامع ہوتی ہے اور بعض کے نزدیک تعریف غیر مانع ہوتی ہے اور اس خاطر صحیح تعریف کو جاننے کے لئے ان تعریفات کا جمع کیا جاتا ہے اور یہ جمع مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاتا ہے:
1. اس کا علم کچھ موضوعات پر مشتمل ہونا چاہیے۔
2. اس میں پائے جانے والے قرائن اور طریقہ کار کے بارے میں معلوم ہو۔
3. اس میں استعمال کئے ہوئے فن اور طریقہ بیان معلوم ہونا چاہیے۔
4. اس میں پائی جانے والی علمی بحثوں کے مصادر اور معانی معلوم ہوں۔
آخر میں عراق کی قادسیہ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ستار عبد الحسین جبار فتلاوی نے جس بحث کو گفتگو کا مرکز بنایا وہ تھا ( قرآن کریم کا عبرانی زبان میں ترجمہ اور معانی پر اعتراضات، قرآنی سورتوں کے نام کا نمونہ) ڈاکٹر فتلاوی نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: عبرانی زبان میں قرآن کریم کی سورتوں کے نام اور ترجمہ و معانی کو دو طریقوں سے چھاپہ گیا ہے جس میں قدیم اور جدید طریقوں کو استعمال کیا گیا ہے ان میں سے ایک ترجمہ 1857ء میں جرمنی کے تسیفی حاییم یہودی نے کیا تھا اور دوسرا ترجمہ 2005ء میں اوری روبین یہودی نے کیا تھا جس میں ابتدائی طور پر ترجمہ کے معنی اور اصطلاحات کو لغوی اور اصطلاحی طور پر کیا گیا تھا عبرانی زبان میں کئے گئے ترجمہ پر کافی اعتراضات اور اشکالات وارد ہوتے ہیں۔
سیمینار میں حاضرین کی طرف سے آخر میں سوالات کئے گئے اور پھر ان سوالوں کے جوابات کو علمی بحثوں کے ذریعے حل کیا گیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: