ایسی آواز جو ہمیشہ حسینیت کا پیغام دیتی رہے گی۔۔۔ مرحوم حمزہ زغیر۔۔۔۔

مرحوم حمزہ زغیر
کربلا کی زمین سے بہت سے نامور خطباء، ذاکرین اور نوحہ خواں پیدا ہو‎ئے ہیں کہ جنہوں نے حسینی مشن کو پوری دنیا میں پھیلانے اور آنے والی نسلوں تک اس کو پہچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کربلا کی آغوش نے جن منبر حسینی کے خدام کو پروان چڑھایا ہے ان میں سے ایک عظیم نام "مرحوم حمزة زغير کربلائی" کا بھی ہے کہ جن کے اخلاص اور حسینی مشن کو آگے بڑھانے کے شفاف جذبہ نے ان کی شخصیت اور آواز کو دائمی زندگی سے ہمکنار کر دیا ہے۔
مشہور نوحہ و مرثیہ خواں مرحوم حمزة زغير کربلائی
سن1921ء میں كربلا کے محلہ باب الطاق میں پدا ہوئے، آپ کا نام حمزة عبود إسماعيل سعدي ہے، لیکن آپ حمزة زغير کے نام مشہور ہوئے، آپ کے حمزہ زغیر کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے زمانے میں حمزہ نام کا ایک اور نوحہ خواں بھی کربلا میں موجود تھا کہ جو آپ سے عمر، قد و قامت اور تجربہ میں زیادہ تھا، لہذا لوگ آپ کو حمزہ زغیر(یعنی چھوٹا حمزہ) کہتے تھے اور آپ کے ہم نام پرانے نوحہ خواں کو حمزہ سماک کہتے تھے۔ پس دونوں ہم نام نوحہ خوانوں کے ناموں میں فرق رکھنے کے لیے آپ کے نام کے ساتھ زغیر لگا دیا۔
مرحوم حمزہ زغیر کو بہت ہی چھوٹی عمر میں والد کا دائمی فراق سہنا پڑا، اس یتیمی کے عالم میں آپ کی والدہ نے آپ کی تعلیم تربیت کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پہ لی اور اپنے اکلوتے بیٹے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔
مرحوم حمزہ زغیر نے اپنی عملی زندگی کے آغاز میں اپنا ذریعہ معاش عطر فروشی کو قرار دیا اور اس کے بعد کچھ عرصہ تک گھریلو برتنوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے رہے اور پھر جوتوں کی صنعت سے منسلک ہو گئے، اپنی آمدنی اور ذریعہ معاش کے طور پر ان کا آخری کام کپڑوں کی استری تھا۔
مرحوم حمزہ زغیر کو باقاعدہ نوحہ خوانی کی طرف لانے والے الحاج مرحوم شیخ صفار تھے جنہوں نے آپ کے اندر چھپے جوہر کو پہچان لیا اور اس جوہر کے نور سے سب کو استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
مرحوم حمزہ زغیر نوحوں، قصائد اور مرثیوں کو حفظ کرنے اور ان کی طرزِ ادائيگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، آج بھی آپ کے پڑھے ہوئے نوحوں کو ماتمی حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل ہے بہت سے نوحہ خواں آج بھی آپ کے نوحوں کو آپ کی طرز میں پڑھتے ہیں اور جب بھی آپ کا پڑھا ہوا نوحہ پڑھا جاتا ہے تو اس کا ایک ایک لفظ ماتمیوں کے دل کی گہرائيوں میں اترتا جاتا ہے اور ماتم اور گریہ اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔
مرحوم حمزہ زغیر زیادہ تر شاعرِ حسيني "كاظم منظور كربلائي" کے لکھے ہوئے نوحے پڑھتے تھے، کاظم منظور نے جو نوحے مرحوم حمزہ زغیر کو پڑھنے کے لیے دیے ان میں سے (آ يحسين ومصابه) کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔
مرحوم حمزہ زغیر نے عراق اور دوسرے بہت سے عرب ممالک میں مرثیہ و نوحہ خوانی اور قصائد کے ذریعے محافظ اسلام و انسانیت حضرت امام حسین(ع) کے پیغام کو پہچانے کا فریضہ ادا کیا اور زندگی کا ایک طویل عرصہ کربلا سے باہر سفر میں اسی فریضہ کی ادائیگی کرتے گزارا۔ لیکن عبدالكريم قاسم کے (1958ء میں) عسکری انقلاب کے بعد مرحوم حمزہ زغیر كربلا میں ہی مستقل سکونت اختیار کر اور اس کے بعد کبھی کربلا سے باہر نہ گئے۔
مرحوم حمزہ زغیر کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ ایسا کلام پڑھا جائے جس میں لوگوں کے لیے کوئی حسینی پیغام بھی ہو لہذا وہ کلام کو اختیار کرنے کے بعد اپنی منفرد آواز اور طرز ادائيگی کے ذریعے حسینیت کے پیغام کو لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں تک پہنچا دیتے۔
کربلا کی دھرتی سے اٹھنے والا یہ مشہور ترین نوحہ خواں طویل عرصہ تک منبر حسینی کی خدمت کرنے کے بعد بروز منگل 23 شوال 1396ہجری کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔
مرحوم کے تشیع جنازہ میں تقریبا پورے کربلا نے شرکت کی اور دوسرے شہروں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ کربلا آئے، مرحوم حمزہ زغیر کی وفات کی خبر سنتے ہی بازار بند ہو گئے اور وفات کی رات پورے شہر میں لوگوں نے گھروں میں اظہار غم کے طور پر روشنیاں بجھا دیں۔
حمزہ زغیر نے تو اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا لیکن ان کی آواز آج بھی اس دنیا میں موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: