کربلا کی تاریخی ماتمی انجمنوں میں سے شامل موکب عزاء طرف باب بغداد اور موکب عزاء بلوش۔۔ ۔۔ (تصویری رپورٹ)

کربلا میں کچھ ایسی ماتمی و حسینی انجمنیں بھی ہیں جن کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ہم آنے والے دنوں میں ان تمام انجمنوں کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر اپنے قارئین کو مطلع کریں گے اور آج انہی پرانی انجمنوں میں شامل موکب عزاء طرف باب بغداد اور موکب عزاء بلوش کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

موکب عزاء طرف باب بغداد
کربلا کے پرانے شہر کے سات اطراف یا سات محلوں میں سے ایک طرف باب بغداد بھی ہے
طرف باب بغداد بھی باقی اطراف کی طرح ہر سال امام حسین(ع) کی عزاداری برپا کرتا ہے طرف باب بغداد کا محلہ کربلا کے پرانے شہر کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس محلہ کی جانب سے موکب عزاء طرف باب بغداد کے نام سے عزاداری اور زائرین کی خدمت کے لیے سن1886ء میں انجمن بنائی گئی کہ جو اب تک شعائرِ حسینی کے قیام اور زائرین کی خدمت سے مشرف ہو رہی ہے۔
یہ موکب عزاء بھی کربلا کے پرانے مواکب کی طرح مختلف قبائل اور گھرانوں نے مل کر بنایا موکب عزاء طرف باب بغداد کی بنیاد رکھنے میں جن قبائل اور گھرانوں کے افراد سرگرم رہے ان میں سر فہرست یہ ہیں: آل عواد، آل وزني، آل أبو شمطو والنجار، آل البير، آل كلش، آل النصراوي وآل غريب۔۔۔۔۔۔ سادات آل ضياء الدين، سادات آل نصر الله، سادات آل أبو المعالي، سادات الموسوي، سادات آل ماميثة۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موکب عزاء طرف باب بغداد کے معروف شعراء اور نوحہ خوانوں میں مرحوم خطیب و شاعر مولانا شيخ كريم الكربلائي، شيخ كميل الكربلائي، عبد الأمير الأموي، الحاج نصر اللحام، الحاج عقيل صاحب فرهود، سيد كريم العرداوي والسيد بدري ماميثة قابل ذکر ہیں۔
موکب عزاء طرف باب بغداد کے پاس شعائر حسینی کے احیاء اور عزاداری کے قیام کے حوالے سے بہت سی تاریخی اور قیمتی اشیاء موجود تھیں کہ جن کو ایک گھر میں حفاظت کے ساتھ رکھا جاتا تھا لیکن 1991ء میں جب صدام ملعون کی حکومت نے کربلا پر بمباری کی تو اس بمباری سے وہ گھر بھی بالکل تباہ ہو گیا کہ جہاں موکب کا سامان پڑا تھا گھر کے ساتھ پورا سامان بھی ختم ہو گیا لیکن صدام ملعون کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسی محلہ کے رہنے والوں نے دوبارہ سے سامان نئے سرے سے بنوایا اور پھر سے پہلے کی طرح عزاداری کرنے لگے۔
موکب عزاء طرف باب بغداد ہر سال پانچ محرم اور چھ محرم کی رات کو ماتمی جلوس برآمد کرتا ہے اور اسی طرح دس محرم کو بھی جلوس نکالتا ہے کہ جو منطقہ باب بغداد سے برآمد ہو کر روضہ مبارک حضرت عباس(ع) میں آتا ہے اور پھر حضرت امام حسین(ع) کے روضہ مبارک میں جاتا ہے۔

موکب عزاء بلوش
کربلا کے پرانے شہر کے جنوب میں پہلے ایک بستی ہوا کرتی تھی کہ جسے عگدالبگوش کہا جاتا تھا اس بستی کے رہنے والے پہلے تو اپنے گھروں اور گلیوں میں مجالس کروایا کرتے تھے اور دوسری ماتمی انجمنوں کی طرف سے نکالے جانے والے ماتمی جلوسوں میں شرکت کرتے تھے پھر عگدالبلوش کے رہنے والوں نے مل کر ایک حسینی انجمن بنانے کا فیصلہ کیا اور سن 1898ء میں موکب عزاء بلوش کے نام سے ایک ماتمی انجمن کی بنیاد رکھی۔
عگدالبلوش کے رہنے والوں نے الگ سے ایک ماتمی و حسینی انجمن کے بنانے کے بعد باقاعدہ طور پر محرم کے پہلے دس دن مشترکہ طور پر اجتماعی مجالس کا انعقاد شروع کر دیا اور کربلا کی باقی انجمنوں کی طرح ماتمی جلوس کی شکل میں کربلا کے دونوں حرموں میں آ کر امام حسین(ع) اور ان کے انصار پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ماتم، زنجیر زنی، قمہ زنی اور نوحہ خوانی کے ذریعے پرسہ دینے لگے۔ موکب عزاء بلوش عاشوراء کی شام کو خیام میں آگ لگنے کی منظر کشی کرنے کے لیے بہت سارے چھوٹے بڑے خیمے نصب کرتے ہیں اور ان میں سے ایک خیمے کو آگ لگا دیتے ہیں۔
جو خطباء، شعراء اور نوحہ خوان موکب عزاء بلوش کی طرف سے قائم ہونے والی مجالس میں ذکر اہل بیت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں ان میں سید عبد الحسین قزوینی، شیخ ھادی کربلائی، شیخ عبد الزھراء کعبی، ملا حمزہ زغیر اور محسن صفار کو اس انجمن کی طرف منعقد ہونے والی مجالس اور ماتمی جلوسوں میں ذکر اہل بیت کرنے کا زیادہ موقع ملا ہے۔
جن افراد نے موکب عزاء کے قیام اور فعالیت میں اہم کردار ادا کیا ان میں سید حسین بلوشی، الحاج جواد مازن، الحاج صاحب عبود، الحاج جلیل شیخ اور محمد فرحان کہربائی کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: