حوزہ علمیہ کے بزرگ استاد علامہ سید احمد صافی نے روضہ مبارک حضرت عباس(ع) میں دعاءِ ابو حمزہ ثمالی(رض) کی تشریح پر مشتمل دروس کے سلسلہ کا دوسرا درس دیا کہ جس میں دینی و حوزوی شخصیات اور روضہ مبارک کے خدام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
علامہ سید صافی کا یہ دوسرا درس ان کے چار سال پہلے امام سجاد(ع) کی تعلیم کردہ دعاءِ ابو حمزہ ثمالی کی تشریح پر مبنی شروع کیے گئے دروس کی سلسلہ وار کڑی ہے اور اس سال ماہ مبارک میں اس سلسلہ کو دوبارہ شروع کیا گیا ہے کہ جس میں وہ اس دعا سے متعلقہ مضامین و فقرات کو پیش کر رہے ہیں۔
دوسرے درس میں انھوں نے رمضان المبارک کے بہت سے فضائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس مہینے میں آنے والوں کے لیے آسمان اپنے دروازے کھول دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جہنم کے دروازے بند کر دیتا ہے اور جنت کے دروازے کھول دیتا ہے، یہاں تک کہ اس ماہ میں غیر ارادی افعال و اعمال کے لیے بھی خدا نے اجر وثواب قرار دیا ہے، اس مہینے میں سونا اور سانس لینا بھی عبادت ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ولطف وکرم ہے۔
انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے ایک گروہ کو نیک اعمال لکھنے اور روزے دار کی سانسوں کو شمار کرنے کی ذمہ دہری سونپ رکھی ہے گویا کہ یہ گروہ رمضان کے مہینے میں صرف اسی کام کے لیے وقف ہو جاتا ہے، لہذا اس مقدس مہینے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور گناہوں سے اجتناب کرنا چاہیے، اس مہینے کی برکات سے محرومی انسان کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت خالی ہاتھ بنا دیتی ہے اور نیکیوں کے بار کی بجائے اس کی پیٹھ گناہوں سے لدی ہوتی ہے، لہذا انسان کا متوجہ ومتنبہ ہونا ضروری ہے۔
علامہ صافی نے بیان کیا کہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اور بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، جیسا کہ روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ: سجدہ ہی تکبر اور عاجزی کے درمیان فرق کی علامت ہے۔
علامہ سید صافی نے رسول خدا(ص) اور اہل بیت اطہار(ع) کی سنت کی پیروی کرنے، ان کی روش کو اپنانے اور ان کے راستے پر چلنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ کثرت سے نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے کا شارع نے ہم سے مطالبہ کیا ہے اور بہت سے علماء جب غمگین ہوتے تو نماز کے ذریعے اس غم سے نجات پاتے اور یہی طریقہ رسول خدا(ص) کا تھا پس انھیں خدا تعالیٰ سے وہ سب مل جاتا کہ جو کسی اور کے پاس سے نہیں مل سکتا اور امام سجاد علیہ السلام کی طرف سے خدائے بزرگ و برتر کے حضور حاضر رہنے کے اشتیاق کو بیان کیا گیا ہے۔